امریکی غلامی میں جانے کے باوجود عمران کی رہائی ممکن کیوں نہیں؟
عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے ہم کوئی غلام نہیں اور ایبسلوٹلی ناٹ کے نعرے لگانے والے یوتھیوں نے اچانک امریکی غلامی پر یوٹرن لیتے ہوئے ایبسلوٹلی، ’’یس‘‘ کی آوازیں بلند کرنا شروع کر دی ہیں۔ ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کے بعد یوتھیے خوشی سے نہال تھے ہی تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عمرانڈو ہم جنس پرست رچرڈ گرینل کو اپنا خصوصی ایلچی مقرر کرنے کے بعد یوتھیے یہ دعوے کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ اب ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد عمران خان کو جیل سے باہر آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
تاہم مبصرین کے مطابق امریکی سیاست میں ہونے والی پیشرفت کے بعد پاکستان کے سیاسی منظرنامے کے حوالے سے ایک اہم اور بنیادی سوال ہر جگہ زیربحث ہے۔ کیا ٹرمپ انتظامیہ تحریک انصاف کے لیے مسیحا ثابت ہوسکتی ہے اور کیا امریکا سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے؟ تجزیہ کاروں کے مطابق تاریخی حوالوں سے دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان بعض امور پر امریکی دباؤ کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اور امریکی دباؤ کے باوجود پاکستان کی پالیسی یکساں اور غیر متزلزل رہتی ہے۔ جیسے ایٹمی پروگرام پر اور عسکری استعداد خصوصاً میزائل پروگرام پر کسی قسم کا دباؤ خاطر میں نہیں لایا گیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ ایک حد سے زیادہ دباؤ ڈالنے پر باؤنس بیک کرتی ہے اور یہ بات امریکی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور ان کی انٹیلی جنشیا اچھی طرح جانتی ہے۔ جیسا کہ پاکستان نے امریکا کی خاطر اپنے ہمسایہ ممالک خاص کر ایران کے ساتھ کبھی تعلقات نہیں بگاڑے۔ 80 کی دہائی میں جب پاکستان کھل کر مغرب کی مدد سے روس کے خلاف افغان تحریک مزاحمت کو سپورٹ کرر ہا تھا تب بھی جنرل ضیا الحق نے شدید دباؤ کے باوجود ایران کے خلاف کبھی کچھ نہیں کیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اسی طرح پاکستان نے امریکی دباؤ کے باوجود کبھی چین سے اپنے تعلقات منقطع نہیں کیے۔ پاکستان کے عسکری معاملات ہمیشہ چین کے ساتھ جڑے رہے، خواہ امریکی اس پر جس قدر ناک بھوں چڑھاتے رہے ہوں۔ پاکستان سی پیک کو ترک کرنے کے حوالے سے امریکی دباؤ کی ابھی تک مزاحمت کر رہا ہے۔ ایک اور معاملہ جس پر امریکی کانگریس نے بھی خاصا دباؤ ڈالا، مگر اسٹیبلشمنٹ نے اس پر اسٹینڈ لیا وہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکا کے حوالے نہ کرنا ہے۔ پچھلے 13 برسوں سے امریکی خفیہ اداروں کے لیے استعمال ہونے والا ڈاکٹر شکیل سلاخوں کے پیچھے ہے اور سردست اس کی رہائی کے امکانات کم ہی ہیں۔
تاہم بعض دیگر مبصرین کے مطابق ایک اور بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پاکستان کی دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت یا قوت مزاحمت میں کمزور معاشی صورتحال کی وجہ سے کمی آئی ہے۔ امریکا کے پاس پاکستان پر دباؤ ڈالنے یا کچھ منوانے کے لیے سب سے آسان اور مؤثر طریقہ آئی ایم ایف معاہدہ ہے۔ہر 3 مہینے کے بعد آئی ایم ایف معاشی پروگرام کا جائزہ لیتا ہے اور پھر یہ طے کرتا ہے کہ اگلی قسط دی جائے یا نہیں؟ پاکستان کا معاشی استحکام بڑی حد تک آئی ایم ایف کے پروگرام پر منحصر ہے۔ امریکا کو اب پاکستان سےکچھ منوانا ہو تو اس بار لیوریج آئی ایم ایف ہی ہوگا۔
تاہم یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کا رویہ پاکستان کے ساتھ کیسا ہوگا؟ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مبصرین کا کہنا ہے کہ نومنتخب صدر ٹرمپ نے ابھی تک عمران خان کے حوالے سے کوئی ٹوئٹ یا بیان نہیں دیا۔ درحقیقت ان کے اب تک کے پالیسی ایجنڈے میں پاکستان کا سرے سے ذکر ہی نہیں آیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کا اصل فوکس امریکا کے اندر اصلاحات لانے، امریکی اسٹیبلشمنٹ کو ’راہ راست‘ پر لانے، ڈیموکریٹس کو سبق سکھانے، سرکاری اخراجات کم کرنے اور غیر قانونی تارکین وطن سے امریکا کو محفوظ بنانے پر ہے۔ یوکرائن جنگ ختم کرانا ان کی ترجیح ہوگی، مڈل ایسٹ پر کوئی بڑا سمجھوتا کرنا بھی ان کے ٹاسک میں شامل ہوسکتا ہے۔ چین کے ساتھ تجارتی جنگ بھی ٹرمپ کا فوکس ہے۔ مبصرین کے مطابق ان بڑے ایشوز کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور پھر پاکستان کی داخلی سیاست پر توجہ کرنا اور اسیر عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنا صدر ٹرمپ کی ترجیحات میں شامل نہیں ہو گا۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے مخالفانہ رویہ یا سوچ کی حامل نہیں ہوگی۔ وہ پرو عمران خان نہیں مگر اینٹی عمران خان بھی نہیں ہوں گے۔ مبصرین کے بقول اگرتحریک انصاف کے حامی اوور سیز پاکستانیوں کی منتوں ترلوں پر مبنی لابنگ مؤثر رہی تو عین ممکن ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ میں انہیں کسی قدر ہمدردی مل سکے۔
190 ملین پاؤنڈز کیس کا فیصلہ آنے تک مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ
تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف کے لوگ خصوصاً سوشل میڈیا ایکٹوسٹس ٹرمپ انتظامیہ سےبہت زیادہ توقعات لگائے بیٹھے ہیں، ممکن ہے ویسا نہ ہو، مگر بہرحال کوشش کرنے پر انہیں کچھ نہ کچھ کامیابی ضرور مل سکتی ہے۔ تاہم مبصرین کے مطابق اگر امریکہ کی جانب سےایس کوئی مطالبہ کیا گیا تو اسے آگے سے ایبسلوٹلی ناٹ ہی سننے کو ملے گا چونکہ وفاقی حکومت اور مقتدرہ قوتیں یہ فیصلہ کر چکی ہیں کہ عمران خان کے حوالے سے کوئی دباؤ برداشت نہیں کیا جائے گا اور پراجیکٹ عمران اور اس کے سہولتکاروں کو ہر صورت انجام تک پہنچایا جائے گا تاکہ آئندہ کسی کو ریاستی اداروں پر چڑھائی کی جرات نہ ہو۔ اس لئے 20 جنوری کو ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کسے کرشمے کی امید لگائے بیٹھے یوتھیوں کو سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملے گا۔