صدر ٹرمپ کا یوتھیوں کی امیدوں پر پورا اترنے کا امکان کیوں نہیں؟
معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ امریکہ میں عمران خان کے پاکستانی نژاد عاشقان نے احتساب عدالت کی جانب سے کپتان کو 14 برس قید با مشقت کی سزا سنائے جانے کے باوجود نو منتخب امریکی صدر سے وابستہ امیدیں نہیں توڑیں اور انہیں اب بھی یقین ہے کہ صدارت کا ہوتا سنبھالتے ہی ٹرمپ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا مطالبہ کر ڈالیں گے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ امریکہ اور پاکستان کے معاملات یوتھیوں کی امیدوں کے برعکس چلنا شروع ہو جائیں۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں دنیا کی مشہور ترین یونیورسٹیوں کے حامل دنیا کی واحد سپرطاقت کہلانے والے امریکہ میں بیٹھے پاکستانی ان یوٹیوبرز کو نہایت عقیدت سے سنتے ہیں جو پاکستان ہی میں رہتے ہوئے ہمارے ملک اور اسکے سیاسی نظام کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ تحریک انصاف کے بانی میں چھپا ایک ’’مسیحا‘‘ بھی ایسے ہی لوگوں کو نظر آتا ہے۔ نصرت کا کہنا یے کہ نو منتخب امریکی صدر نے اپنے معاونین کی جو ٹیم نامزد کی ہے پاکستان مخالف یوتھیے اس سے تعلق قائم کرنے کو بہت بے چین ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے وینزویلا اور شمالی کوریا کے لئے نامزد ’خصوصی سفیر‘ رچرڈ گرنیل بھی ان لوگوں کی توجہ کا خصوصی مرکز ہے۔
سینئیر صحافی کا کہنا ہے کہ بہرحال پاکستان کے ’’نظام کہنہ‘‘ سے اکتا کر امریکہ منتقل ہونے والے میرے سابقہ ہم وطنوں کی اکثریت اپنے مسیحا کی جیل میں بندش سے بہت پریشان ہے۔ ان میں سے جو لوگ میڈیکل کے شعبے سے وابستہ ہیں بہت خوشحال ہیں۔ طاقتور لوگوں کے معالج ہونے کی وجہ سے ان کے امریکی پارلیمان کے کئی اراکین کے ساتھ فیملی مراسم بن چکے ہیں۔ اپنی رسائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عاشقان عمران خان نے امریکی پارلیمان سے اپنے ممدوح کی حمایت میں ریکارڈ تعداد کے ساتھ ایک قرارداد منظور کروا لی۔ لیکن بانی تحریک انصاف اس کے باوجود جیل ہی میں بند ہیں اور اب انہیں احتساب عدالت کی جانب سے 14 برس لمبی قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ اسخے باوجود امریکی نظام پاکستانی یوتھیوں کی جانب سے امید باندھی جارہی ہے کہ 20جنوری کو صدارتی حلف اٹھانے کے فوری بعد ٹرمپ کسی نہ کسی انداز میں ریاست و حکومتِ پاکستان کو یہ پیغام دے گا کہ وہ عمران خان کے ساتھ ہونے والے سلوک سے ناخوش ہے اور پاکستان کو اپنی معیشت بچانے کے لئے اسے جلد از جلد رہا کرنا ہوگا۔
تاہم نصرت جاوید کا کہنا یے کہ انہیں نہیں لگتا کہ ٹرمپ سے عاشقان عمران جو امید باندھے ہوئے ہیں وہ پوری ہو گی۔ لیکن میں امریکی سیاست اور عالمی امور کا طالب علم ہوتے ہوئے یہ محسوس کررہا ہوں کہ ٹرمپ پاکستان جیسے ملکوں کے لئے بری خبریں ہی لائے گا۔ ان ’’بری خبروں‘‘ کا آغاز عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافے سے ہوچکا ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے عالمی منڈی میں فی بیرل کی قیمت 70 سے 72 ڈالر تک محدود رہی تھی۔ اس کی بدولت پاکستان میں پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتیں نسبتاََ قابل برداشت نظر آنا شروع ہو گئیں۔ لیکن گزشتہ دس دنوں سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ابھی تیل کے ایک بیرل کی قیمت 80 ڈالرز سے تجاوز کر چکی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے حکومت پاکستان نے بھی پٹرول کی قیمت میں ساڑھے تین روپے فی لیٹر اضافے کا اعلان کردیا ہے۔ ڈیزل بھی 2.61 روپے مہنگا ہو گیا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اس امر کو یقینی بنانا چاہ رہا ہے کہ اس کی جانب سے روسی تیل کی عالمی منڈی میں فروخت پر لگائی پابندی موثر ثابت ہو۔ اس ضمن میں وہ چین سے زیادہ بھارت سے نالاں ہے۔
سینئیر صحافی کا کہنا ہے کہ بھارت بڑے چائو سے گزشتہ تین دہائیوں سے امریکہ کا ’’سٹرٹیجک اتحادی‘‘ بنا تھا۔ مودی اور ٹرمپ کی جپھیوں اور پپیوں کے باوجود بھارت نے روس سے یوکرین کے خلاف شروع ہوئی جنگ کے بعد سے ریکارڈ تعداد میں خام تیل خریدنا شروع کردیا۔ روس نے اپنے پرانے دوست کو خام تیل سستے داموں بیچا۔ اس تیل کو بھارت میں امبانی گروپ اور روس کی لگائی ریفائنریوں میں صاف کرنے کے بعد جو ڈیزل نکلا وہ اور اپنی ضرورت سے زیادہ تیل بھارت نے دیگر ممالک کو فروخت کرتے ہوئے زبردست سیزن لگایا۔ بھارت کے مقابلے میں امریکہ کی روسی تیل پر لگائی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان وہاں سے سستا تیل اس لئے بھی حاصل نہ کر پایا کہ ہمارے ہاں روسی خام تیل کو صاف کرنے والی ریفائنریاں موجود نہیں۔ ایران ہمارا قریب ترین ہمسایہ ہے لیکن ہم امریکی پابندیوں کی وجہ سے پائپ لائن بچھا کر ایرانی تیک بھی حاصل نہیں کر پائے ہیں۔
کیا صدر زرداری کی جانب سے عمران کی سزا معاف کرنے کا امکان ہے؟
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ تیل کی قیمت میں ہوشربا اضافے کے علاوہ مجھے یہ پریشانی بھی لاحق ہے کہ امریکہ کو ’’دوبارہ عظیم‘‘ بنانے کے جنون میں ٹرمپ غیر ملکوں سے آئی اشیاء پر ٹیکس میں اضافے کو تلا بیٹھا ہے۔ امریکہ ان چند ممالک میں نمایاں ترین ہے جو ہمارے ساتھ تجارت کے حوالے سے خسارے میں ہے۔ ہم اوسطاََ اس ملک کو کم از کم تین ارب ڈالر سالانہ کی ٹیکسٹائل مصنوعات بیچتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ تجارتی خسارے کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ٹرمپ ہمارے ہا ں سے امریکہ جانے والی ٹیکسٹائل مصنوعات پر بھاری ٹیکس عائد کرسکتا ہے جو ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ بجلی کی ناقابل برداشت قیمت کی وجہ سے ہماری مصنوعات ویسے بھی دیگر ممالک میں تیار ہوئی مصنوعات کے مقابلے میں مہنگی ہوچکی ہیں۔ ٹرمپ کے لگائے ٹیکس کے بعد انہیں خریدنے کو کوئی صارف تیار ہی نہیں ہوگا۔ بدقسمتی سے جن پہلوئوں کی جانب میں توجہ دلارہا ہوں وہ امریکہ میں مقیم پاکستانی نڑاد عاشقان عمران کے ذہن میں آہی نہیں رہے۔ انہیں فقط اپنے ممدوح کی رہائی درکار ہے۔ پاکستان چاہے جتنی بھی مشکلات کا شکار ہو جائے، انہیں کیا لگے، اللہ اللہ خیر صلٰی۔