نواز شریف سیاست سے دل برداشتہ ہو کر خاموش کیوں ہیں؟

حالیہ مہینوں میں میاں نواز شریف کی خاموشی، طرز سیاست اور کسی قدر عقب نشینی پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہوئی ہیں اور بیشتر کسی قدر طنز یا تشنیع کا رنگ لیے ہوئے۔ لیکن سچ یہی ہے کہ پاکستانی سیاست میں نواز شریف کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے اس کے بعد اب ان سے یہ سوال کرنا نہیں بنتا کہ وہ خاموش کیوں ہیں۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے معروف لکھاری وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ سیاست دنیا کا مشکل ترین پیشہ ہے۔ اس میں بے پناہ ذہانت، رچا ہوا علم، معاملہ فہمی اور معاشرے کے پیچ در پیچ دھاروں سے گہری آشنائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ انسانی تاریخ کا گہرا شعور درکار ہوتا ہے۔ اپنے عہد کے امکانات سے آگاہ ہونا پڑتا ہے۔ کم عمر بچہ اپنے اردگرد کی دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے۔ درس گاہ میں نئی دنیائوں کی خبر پاتا ہے۔ نوجوانی کے جوش میں نعرے لگاتا ہے۔ جلسہ مرتب کرنا سیکھتا ہے۔ سیاسی تنظیم کے اصول سمجھتا ہے۔ بزرگ سیاست دانوں سے اختلاف اور مفاہمت کی حدود سیکھتا ہے۔ خطابت کے نکات معلوم کرتا ہے۔ گرفتار ہوتا ہے، روپوش ہوتا ہے۔ سیاست اور اقتدار کا تعلق معلوم کرتا ہے۔ سفارت کے آداب اور دلیل تراشنے کا ہنر سیکھتا ہے۔ مکالمے کی تہذیب سمجھتا ہے۔ معیشت کی حرکیات سے آشنا ہوتا ہے۔ متنوع مفادات میں سمجھوتے کی راہ نکالنے کا ہنر اکتساب کرتا ہے۔ ’تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں‘۔

وجاحت مسعود کہتے ہیں کہ چرچل 25 برس کی عمر میں پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا تھا۔ چالیس برس سیاست کرنے کے بعد مئی 1940ء میں برطانیہ کا وزیراعظم بنا۔ ایک ریاستی اہلکار اپنی مدت ملازمت پوری کر کے جس عمر میں ریٹائر ہوتا ہے، سیاست دان بمشکل کارکن سے مدبر کے درجے پر پہنچتا ہے۔ ہماری تاریخ دیکھئے۔ لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کیا گیا تو وہ 56 برس کے تھے۔ ایوب خان نے سہروردی کو سیاست سے بے دخل کیا تو وہ 66 برس کے تھے۔ بھٹو صاحب کا عدالتی قتل ہوا تو ان کی عمر 51 برس تھی۔ بینظیر کو شہید کیا گیا تو وہ 54 برس کی تھیں۔ 28 جولائی 2017ء کو ’پراجیکٹ عمران‘ مکمل کرنے کے لئے نواز شریف نااہل قرار پائے تو وہ 68 برس کے تھے۔ ہم نے اس ملک میں سیاست کے پودے کو تدبر کا تناور شجر بننے کا موقع ہی نہیں دیا۔

وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ اکتوبر 2023ء میں نواز شریف وطن لوٹے تو ان کی عمر 73 برس ہو چکی تھی۔ اب صحت کا وہ عالم تھا اور نہ جسمانی توانائی وہ رہی۔ معزولی، جلاوطنی اور قید کے مختلف مرحلوں میں ان کی سیاست کے چوبیس برس ضائع ہو گئے۔ عشروں کی محنت سے سیاسی شعور سے محروم رکھے گئے عوام کو تاثر دیا گیا کہ نواز شریف گٹھ جوڑ کر کے وزیراعظم بننے آرہے ہیں۔ فروری 2024ء کے انتخابات جمہوری سیاست کا شفاف چشمہ نہیں، سازش اور معاشی بحران کی گدلی بدرو تھے۔ کیا مانسہرہ میں نواز شریف اور پنجاب میں ان کے قریبی رفقا رانا ثنا اللہ، سعد رفیق اور جاوید لطیف وغیرہ کی انتخابی شکست محض اتفاق تھا۔ اپریل 2022ء سے 9 مئی 2023ء تک کی سیاسی کشمکش محض ایک حادثہ تھی؟ پاکستان کا سیاست دان 1973ء کا دستور مرتب کرتا ہے تو ہم 1985ء کی آٹھویں ترمیم کا جال بچھاتے ہیں۔ چودہ برس کی محنت سے گاڑی سیدھے راستے پر مڑتی ہے تو 2003ء کی سترہویں آئینی ترمیم مسلط کی جاتی ہے۔ فروری 1999ء میں بھارتی وزیراعظم لاہور میں کھڑے ہو کر پاکستان تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہیں تو کارگل ہو جاتا ہے۔ سیاست دان میثاق جمہوریت کرتے ہیں تو محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کیا جاتا ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم لاتے ہیں تو میموگیٹ کا ہانکا کیا جاتا ہے۔ 21 اکتوبر 2024ء کو منظور ہونے والی آئینی ترمیم 1996ء کے الجہاد ٹرسٹ فیصلے اور 2011ء کی 19ویں آئینی ترمیم کا جمہوری جواب ہے۔

وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ ہیولوں کی سیاست میں تقرری، توسیع اور میعاد کے معاملات برسوں کے لیے قوم کی معیشت اور تمدنی ترقی کا راستہ کھوٹا کرتے ہیں اور ہم ایسے معصوم ہیں کہ طنزیہ مسکراہٹ سے پوچھتے ہیں، ’نواز شریف دل برداشتہ کیوں ہیں۔

Back to top button