تحریک انصاف کا پنجاب سے مکمل صفایا کیوں ہونے جا رہا ہے؟
مریم نواز کی جانب سے حکومتی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد پنجاب میں یوتھیوں کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے جہاں ایک طرف پنجاب اسمبلی میں بطور حزب اختلاف پی ٹی آئی کے کردار کو ’غیر تسلی بخش‘ قرار دیا جا رہا ہے، وہیں پارٹی کی حکومت مخالف احتجاج کی کالز میں بھی پی ٹی آئی ہنجاب کی کارکردگی تنقید کی زد میں ہے۔ تحریک انصاف کی صوبائی نااہل قیادت کی وجہ سے ہی پی ٹی آئی کو شیخوپورہ کے حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔مبصرین کے مطابق پنجاب میں اگر پی ٹی آئی کے حالات یہی رہے تو ے والے دنوں میں اسے تحریک انصاف کو تانگہ پارٹی بننے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔
پنجاب کے عوام کی جانب سے پی ٹی آئی کی احتجاجی اور انتشاری سیاست سے اظہار برات کے بعد تجزیہ کار بانی پی ٹی آئی کی جانب سے 16 دسمبر کو سول نافرمانی کی تحریک کی کامیابی کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور اس کی کامیابی کے امکانات پر شکوک کا اظہار نظر آ رہے ہیں۔
سینیئر صحافی جاوید فاروقی کے بقول، ’پی ٹی آئی جلسے جلوسوں کے ذریعے اپنے کارکنوں کو متحرک رکھتی تھی۔ تاہم پنجاب میں قیادت کا فقدان اور ایوان میں مؤثر اپوزیشن نہ کرنے پر نہ صرف کارکن بلکہ اراکین اسمبلی بھی مایوس دکھائی دیتے ہیں۔‘جاوید فاروقی کے بقول، ’پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف نے حکومت کو ابھی تک کوئی ٹف ٹائم نہیں دیا۔ وزیر اعلی کے انتخاب سے اب تک حکومت کو کسی قسم کی مشکل پیش نہیں آئی۔ بلکہ مریم نواز کے خلاف نعرے بازی پر پی ٹی آئی کے متعدد اراکین کی رکنیت ہی معطل کر دی گئی تھی اس کے باوجود تحریک انصاف سوائے منتوں ترلوں کے کچھ نہیں کر پائی تھی۔
جاوید فاروقی کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ آٹھ سے 10 ماہ کے دوران پنجاب حکومت کے خلاف اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ صرف وزیر اعلی کے انتخاب اور بجٹ اجلاس کے موقع پر نعرے بازی کی گئی۔ لیکن قانون سازی ہو یا قراردادوں کی منظوری حکومت تمام امور بغیر کسی رکاوٹ کے چلا رہی ہے۔ کسی پالیسی یا منصوبے میں تبدیلی کرانے میں اپوزیشن ابھی تک ناکام رہی ہے۔‘
خیال رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے ماضی میں پنجاب کے مختلف شہروں میں جلسے اورجلوس ہوتے رہتے تھے۔ لیکن اب قیادت کی کال پر بھی لانگ مارچ یا احتجاج کے لیے کارکنوں کی حوصلہ افزا تعداد دیکھنے میں نہیں آتی۔ تاہم اپنی ناقص کارکردگی کا جواب دینے کی بجائے یوتھیے رہنما سیاسی انتقام کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر پی ٹی آئی کارکنان اور رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے نہ مارے جائیں تو وہ ضرور احتجاج کیلئے باہر نکلیں۔
پی ٹی آئی رہنما امتیاز شیخ کے مطابق: ’جیسے ہی بانی پی ٹی آئی احتجاج کی کال دیتے ہیں پوری پنجاب پولیس روکاوٹیں کھڑی کرنے اور گرفتاریوں پر لگ جاتی ہے۔ مجھ سمیت پنجاب کی پوری قیادت کے خلاف سنگین مقدمات درج ہیں۔ چھپتے پھر رہے ہیں تاکہ باہر رہ کر کردار ادا کرتے رہیں۔’ہمارے بیشتر رہنما گرفتار ہیں اور جو بچے ہیں انہیں گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ زیادہ تر جلسے اور احتجاج خیبر پختونخوا میں ہی ریکارڈ کرائیں گے۔
تاہم جاوید فاروقی کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی قیادت زمینی حقائق سے لاعلم لگتی ہے۔ کارکنوں کو آئے روز احتجاج کی کال دے کر پولیس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے جبکہ پارٹی لیڈر بھاگ جاتے ہیں۔ اس وجہ سے اب عوام تحریک انصاف کی احتجاجی کالز پر کوئی جواب نہیں دیتی۔ جاوید فاروقی کے مطابق پی ٹی آئی کو موجودہ حالات میں حکمت عملی کے تحت سیاست کرنی چاہیے۔’کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک موجود ہے لیکن کارکنوں کو جس طرح تھکایا جا رہا ہے وہ اب جلسے جلوسوں میں دلچسپی نہیں لیتے۔ دو بار کال کے باوجود باہر نکلنے کو تیار نہیں ہوئے۔ صرف خیبر پختونخوا میں حکومتی وسائل سے ہی لوگوں کو نکالا جاتا ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’پی ٹی آئی نے اپنے طرز عمل سے پنجاب کے ایوانوں میں اور باہر سیاسی استحکام پیدا کر رکھا ہے۔ حکومت کو فری ہینڈ دیا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے مریم نواز حکومت پر اپوزیشن کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ مریم نواز حکومت کھل کر کھیل رہی ہے جبکہ پی ٹی آئی رہنما کارکنان سمیت بلوں میں چھپے بیٹھے ہیں۔