اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی خبر پر PTI قیادت کنفیوزن کا شکار کیوں ؟

پی ٹی آئی رہنماؤں کی عمران خان سے ملاقات کے بعد اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کے فیصلے کی خبر پر پارٹی قیادت شدید کنفیوژن کا شکار ہے چونکہ کچھ رہنما اسے ایک اچھی خبر قرار دے رہے ہیں جب کہ دیگر لیڈران اسے گمراہ کن پروپگینڈا قرار دے رہے ہیں، جس کا بنیادی مقصد عمران خان کی ساکھ خراب کرنا ہے۔

عمران خان سے عدالتی حکم کے مطابق عید کے تیسرے روز وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اور مشیر بیرسٹر سیف کی ملاقات کے بعد اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے بارے میں متضاد خبریں گردش میں ہیں۔ اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ’عمران خان نے ملکی بھلائی کے لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ دوبارہ رابطے قائم کرنے‘ کے لیے کہا ہے۔ اس کے بعد مین سٹریم میڈیا پر یہ خبریں چلنا شروع ہو گئیں کہ علی امین گنڈاپور نے اپنے کپتان کو سمجھایا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے دوبارہ رابطے بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ فوج مخالف گفتگو بند کر دیں تاکہ بات چیت کا راستہ ہموار ہو سکے۔

خبروں کے مطابق  عمران خان نے علی امین گنڈا پور سے کہا کہ وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے معاملات آگے بڑھانے کی کوششوں کا دوبارہ آغاز کریں۔ جواب میں وزیراعلی خیبر پختون خواہ نے اپنے کپتان سے کہا کہ ہماری ماضی کی وعدہ خلافیوں کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ ہمارے کسی وعدےپر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ لہٰذا اسٹیبلشمنٹ کو رام کرنے کیلئے ہمیں اپنی اسٹیبلشمینٹ مخالف روش تبدیل کرنا پڑے گی۔ خبروں کے مطابق عمران نے جواب میں گنڈاپور سے کہا کہ وہ کسی بھی صورت میں پاکستان اور فوج کے خلاف نہیں جا سکتے لہذا بھائی لوگوں سی خفیہ مذاکرات کا آغاز کیا جائے تاکہ پارٹی کو بند گلی سے نکالا جا سکے۔

تاہم ان تمام خبروں کے بعد تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے کہا ہے کہ عمران خان نے کسی پارٹی لیڈر کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کا نہیں کہا اور ایسی تمام خبریں جھوٹ کا پلندہ ہیں جن کا بنیادی مقصد بانی پی ٹی آئی کی سیاسی ساکھ خراب کرنا ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ ابھی معاملات بالکل ابتدائی سٹیج پر ہیں۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات کی خبروں کے بعد سوشل میڈیا پر مداحوں کی جانب سے سخت ردِ عمل دیکھنے کو مل رہا ہے تو انہوں نے کہا کہ ’جب خان صاحب واضح ہدایت دیں گے تو سوشل میڈیا بریگیڈ بھی وہی کرے گا جو خان صاحب کہیں گے۔‘

دوسری جانب پی ٹی آئی کے سینیٹر شبلی فراز نے مذاکرات سے متعلق سوال کے جواب میں کہا ہے کہ مجھے عمران خان کی جانب سے کسی کو فوجی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا ٹاسک دینے کا علم نہیں چونکہ میری چھ ماہ سے ان سے ملاقات نہیں ہوئی، لہذا میں کسی قیاس آرائی پر موقف نہیں دے سکتا۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے فیصلے کی خبر پر پی ٹی آئی کے ہمدردوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر سخت رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ زیادہ تر ناقدین کا یہ موقف ہے کہ اگر عمران نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی ڈیل کی تو انکی پچھلے دو سال کی محنت رائیگاں چلی جائے گی اور پارٹی کا گراف مزید نیچے چلا جائے گا۔

یاد رہے کہ  تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا پہلا سلسلہ گذشتہ برس دسمبر میں شروع ہوا، جنوری کے پہلے ہفتے میں دوسرا مرحلہ شروع ہوا اور جنوری کے تیسرے ہفتے میں تیسرے دور کے مذاکرات کے بعد بات چیت بند گلی میں داخل ہو گئی اور مذاکرات کا سلسلہ رک گیا۔

لیکن عمران خان اور گنڈاپور کی حالیہ ملاقات میں مذاکرات بحالی پر قیاس آرائیاں شروع ہو چکی ہیں۔ جیل ذرائع کے مطابق عمران اور علی امین گنڈاپور کے درمیان ملاقات ڈھائی گھنٹے سے زیادہ دیر چلتی رہی۔ اس سے قبل گنڈا پور کی عمران خان سے 13 فروری کو ملاقات ہوئی تھی جسکے بعد مزید ملاقات کی اجازت نہیں ملی لہٰذا اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر کے ہفتہ وار ملاقاتوں کا سلسلہ بحال کرایا گیا۔

چونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان سے ملاقاتوں کی مشروط اجازت دی تھی اور حکم دیا تھا کہ پارٹی رہنما جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد باہر میڈیا ٹاک نہیں کریں گے اس لیے علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر سیف ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت کیے بغیر روانہ ہو گئے۔  وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے حوالے سے کسی کو بھی کوئی نیا ٹاسک نہیں دیا اور اسٹیبلشمنٹ میڈیا ذرائع کے نام پر سے مذاکرات شروع کرنے کی خبریں چلا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کپتان نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ اپنی رہائی اور ذاتی فائدے کے لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ سمیت کسی سے بات چیت نہیں کریں گے۔ پی ٹی آئی کے ترجمان شیخ وقاص اکرم نے بھی مذاکرات کی تردید کی اور کہا کہ نہ تو کوئی خان صاحب کے پاس انہیں مذاکرات کے لیے قائل کرنے گیا تھا اور نہ ہی خان صاحب نے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے کسی کو کوئی خصوصی ٹاسک دیا ہے۔

نواز شریف کا متحرک ہو کر نون لیگ کی کمانڈ سنبھالنے کا فیصلہ

شیخ وقاص اکرام کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ سے خان صاحب کی خیبر پختونخوا حکومت کے معاملات پر بات چیت ہوئی۔ اسکے علاوہ پارٹی معاملات پر بات چیت ہوئی اور عمران خان نے وزیراعلی کو ہدایات بھی جاری کیں۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے تحریک انصاف نے حکومت سے مذاکرات کے لیے تحریری مطالبات رکھے تھے، جن میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل دو کمیشن آف انکوائری تشکیل دے، یہ کمیشن وفاقی حکومت کے کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت قائم کیا جائے، کمیشن کے ججز کی تعیناتی تحریک انصاف اور حکومت کی باہمی رضا مندی کے ساتھ سات روز میں کی جائے۔

اس کے علاوہ تحریک انصاف نے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ انکوائری کمیشن عمران خان کی 9 مئی کے کیسز میں گرفتاری کی انکوائری کرے، اسکے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں رینجرز اور پولیس کے داخل ہونے کی انکوائری بھی کی جائے۔ تاہم ان مطالبات کے بعد مذاکراتی عمل ختم ہو گیا تھا کیونکہ پی ٹی آئی نے آگے بڑھنے کے لیے تمام مطالبات تسلیم کرنے کی شرط رکھ دی تھی۔

Back to top button