عمران کی رہائی کے لیے امریکی دباؤ کی کوئی اہمیت کیوں نہیں ؟
امریکی صدارتی الیکشن میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد عمران خان نے نہ صرف اپنی پارٹی کے ذریعے امریکی کانگریس کے اراکین سے حکومت پاکستان کو اپنے حق میں خط لکھوا دیا ہے بلکہ 24 نومبر کو اسلام اباد میں احتجاج کی کال بھی دے دی ہے۔ تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ الٹا بھی ہو جائے تو عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں۔
یاد رہے کہ امریکی کانگریس کے 46 ارکان نے صدر بائیڈن کو ایک خط لکھ کر بانی پی ٹی آئی سمیت دیگر رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ ایک مقبول رہنما کو مسلسل پابند سلاسل رکھا گیا ہے‘ تحریک انصاف کو فروری 2024ء کے انتخابات سے دور رکھنے کی کوشش بھی کی گئی‘ ایسے میں توقع ہے کہ امریکہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی میں اپنا اثر رسوخ استعمال کرے گا۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں آٹھ فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور شہری آزادی سلب کرنے کا سلسلہ جاری ہے‘ اس لیے امریکی ایوان میں منظور کردہ قرارداد نمبر 901 کے مطابق امریکہ پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے۔خط میں پاکستان میں گزشتہ عام انتخابات میں انتخابی دھاندلی اور بے قاعدگی کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کے 60 سے زائد اراکین نے گزشتہ ماہ بھی امریکی صدر جو بائیڈن کو خط لکھا تھا جس میں بانی پی ٹی آئی سمیت پاکستانی جیلوں میں موجود دیگر سیاسی قیدیوں کو رہا کرانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اُس خط پر بھی پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی طرف سے خوشی کا اظہار کیا گیا تھا۔
لیکن سیاسی مفسرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکی کانگریس کے اراکین کے صدر بائیڈن کو لکھے گئے خطوط کا جائزہ لیا جائے تو ان مراسلوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ امریکی انتظامیہ قبل ازیں پی ٹی آئی کی طرف سے امریکہ کے خلاف تشکیل دیے گئے سائفر بیانیے سے بخوبی آگاہ ہے۔ تب پاکستان میں امریکہ کے سفیر نے ان الزامات کو مسترد کیا تھا اور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھی ان الزامات کو غیرحقیقی قرار دیا تھا جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ صدر بائیڈن کانگریس اراکین کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے لکھے گئے خطوط کو کوئی اہمیت نہیں دیں گے اور ٹرمپ بھی اس جانب زیادہ توجہ نہیں دیں گے۔
حکومت نے NRO کی متلاشی PTI کو ٹھینگا دکھا دیا
تو ہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان ٹرمپ کارڈ کھیلنے کے باوجود امریکی دباؤ کے ذریعے رہائی پانے میں کامیاب اس لیے نہیں ہوں گے کہ اب پاکستان کے لیے امریکہ کی وہ اہمیت نہیں رہی جو ماضی میں ہوا کرتی تھی۔