عمران خان کے بچنے کا کوئی امکان باقی کیوں نہیں رہا؟
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں 8 مارچ کو جمع کروائی گئی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں کپتان اینڈ کمپنی کا گھر جانا ٹھہر گیا ہے اور ان کے اقتدار کا سورج اسی مہینے غروب ہونے والا ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد تو اپوزیشن کی جانب سے دائر کی گئی ہے لیکن عمران خان کی اپنی حکمران جماعت تحریک انصاف میں پھوٹ پڑ چکی ہے اور دو درجن سے زائد اراکین قومی اسمبلی کے خلاف ووٹ ڈالنے والے ہیں۔ اس کے علاوہ کپتان کی اتحادی جماعتیں بھی ان سے دوری اختیار کر رہی ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین پاکستان کے مطابق تحریک عدم اعتماد منظور ہونے کی صورت میں وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ کابینہ اراکین بھی فارغ ہو جائیں گے۔ واضح رہے کہ تحریک عدم اعتماد کو ملکی سیاست میں کئی ماہ کی غیریقینی صورتحال کے بعد جمع کرایا گیا جس کا اعلان پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، شہباز شریف اور آصف زرداری نے 11 فروری کو کیا تھا۔
آئین کے مطابق وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شمای کے لیے قومی اسمبلی کے 20 فیصد یا 68 اراکین کے دستخطوں سے ایوان کا اجلاس بلانے کی درخواست جمع کرائی جاتی ہے جس کے دوران تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری ہوتی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 54 کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس ریکوزیشن آنے کے بعد ایوان کا اجلاس بلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ 14 دن ہوتے ہیں۔
اجلاس طلب کرنے کے بعد سیکریٹری قومی اسمبلی یہ نوٹس اراکین کو بھیجیں گے اور عدم اعتماد کی قرارداد اگلے دن یعنی ورکنگ ڈے پر پیش کی جائے گی۔ جس دن قرارداد پیش کی جاتی ہے، قواعد کے مطابق اس پر ” 3 دن سے پہلے یا 7 دن کے بعد ووٹ نہیں دیا جائے گا”۔وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری اوپن ووٹ کے ذریعے ہوتی ہے۔
طریقہ کار کے مطابق جب قومی اسمبلی کا اجلاس ہوگا تو پہلے گھنٹی بجائی جاتی ہے تاکہ اگر کوئی رکن باہر ہو تو وہ اسمبلی ہال میں پہنچ جائے، اس کے بعد دروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد جو اراکین تحریک عدم اعتماد کے حق میں ہوتے ہیں وہ ایک دروازے سے باہر نکلتے ہیں جبکہ اس تحریک کے مخالف دوسرے دروازے سے باہر جاتے ہیں۔ جب اراکین اسمبلی باہر نکل رہے ہوتے ہیں تو گنتی کا آغاز ہوجاتا ہے، جب ہال مکمل خالی ہوجاتا ہے اور رائے شماری مکمل ہوجاتی ہے تو پھر سب دوبارہ ہال میں داخل ہوتے ہیں۔
اس کے بعد اسپیکر کی جانب سے نتیجے کا اعلان ہوتا ہے۔ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے تو اسپیکر کی جانب سے نتیجے کو تحریری طور پر صدر مملکت کے پاس بھیجا کرایا جائے گا اور ایک گزٹڈ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔ اگر اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی ہو تو اس پر رائے شماری خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوتی ہے۔ اسمبلی کے قوانین کے مطابق اس رائے شماری کے دوران اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر اسمبلی سیشن کی صدارت نہیں کرسکتے۔ قومی اسمبلی کے اس اجلاس میں تحریک عدم اعتماد سے ہٹ کر کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
اگر اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک کامیاب ہوجائے تو گزٹڈ نوٹیفکیشن جاری کیا جاتا ہے۔
آئین کے مطابق اگر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں اکثریت سے کامیاب ہوجائے تو وزیر اعظم عہدہ مذید اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ جب وزیر اعظم تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا دیا جاتا ہے تو اس کی کابینہ بھی تحلیل ہوجاتی ہے۔
قانونی ماہر جہانگیر خان جدون کے مطابق ‘کابینہ وزیراعظم کے اختیار کی طاقت کا حصہ ہوتے ہیں۔ ایک کابینہ وزرا، مشیران پر مشتمل ہوتی ہے مگر ایک کابینہ قائد ایوان کے بغیر برقرار نہیں رہ سکتی۔ کابینہ قائد ایوان کی معاونت کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قومی اسمبلی قائد ایوان کے بغیر کام نہیں کرسکتی۔
بیٹے کی موت نے اداکار مسعود اختر کو توڑ کر رکھ دیا تھا
ان کا کہنا تھا ‘جب الیکشن ہوتا ہے تو سب سے پہلے اسپیکر کا انتخاب عمل میں آتا ہے تاکہ ایوان کا ایک نگران ہو اور اسپیکر کے منتخب ہونے کے بعد قائد ایوان کا انتخاب ہوتا ہے تاکہ اس کی سمت کا تعین کیا جاسکے، مگر جب قائد ایوان برقرار نہ رہے تو لازمی طور پر کسی اور کو متنخب کرنا ہوتا ہے۔ جہانگیر جدون نے کہا کہ اگر کوئی قائد ایوان نہ رہے تو صدر اسمبلی کو تحلیل کرکے عام انتخابات کا اعلان کرسکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں قومی اسمبلی کے اسپیکر کو ہٹانے پر ڈپٹی اسپیکر عارضی طور پر اسپیکر کے فرائض اس وقت تک سرانجام دیتا ہے جب تک نئے اسپیکر کا انتخاب نہ ہوجائے۔
واضح رہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے حزب اختلاف کو سادہ اکثریت کی ضرورت ہوگی یعنی قومی اسمبلی کے 342 میں سے 172 اراکین کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔ حزب اختلاف کا دعویٰ ہے کہ اسے مطلوبہ اکثریت حاصل ہے جبکہ مولانا فضل الرحمٰن کا تو کہنا ہے کہ وہ یہ تعداد 180 تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 155 ارکان، ایم کیو ایم کے 7، بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، مسلم لیگ (ق) کے 5 ارکان، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے 3 اور عوامی مسلم لیگ کا ایک رکن شامل ہے۔
جبکہ مسلم لیگ (ن) کے 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے 56 ، متحدہ مجلس عمل کے 15، بلوچستان نیشنل پارٹی کے 4، عوامی نیشنل پارٹی کا ایک، جمہوری وطن پارٹی کا ایک اور اس کے علاوہ 4 آزاد اراکین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اپوزیشن اتحاد نے درجنوں حکومتی اراکین اور چند اتحادی اراکین بھی اپنے ساتھ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ سنیئر صحافی مظہر عباس کے بقول اس وقت حزب اختلاف بظاہر پنجاب اور بلوچستان کے کمزور اراکین قومی اسمبلی پر توجہ مرکوز کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد حزب اختلاف کا ‘آخری پتا’ ہے تو وہ اس کا استعمال اس وقت تک نہیں کرتی جب تک اسے مکمل اعتماد نہ ہوتا۔ انہوں نے مزید کہا ‘وہ جانتے ہیں کہ اس کے بعد واحد آپشن عام انتخابات میں جانے کا ہوگا۔