امریکی صدر بائیڈن عمران کو نکالنے کے در پے کیوں ہے؟
میدان صحافت میں اپنی اننگز مکمل کرنے کے بعد میدان سیاست میں اترنے والے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ بغض و حسد کے مارے لوگ کچھ بھی کہتے رہیں، مجھے تو ذرہ برابر شک نہیں کہ ہماری تاریخ میں نہ پہلے کوئی عمران خان نامی بطل جلیل جیسا آیا، نہ آئندہ آئے گا، تاہم سیانے کہتے ہیں کہ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے اور دما دم صدائے ”کن فیکون“ آ رہی ہے اس لئے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
بہرحال یہ بات یقینی ہے کہ خان صاحب جیسے کسی دیدہ ور کے لئے، نرگس کو برس ہا برس تک اپنی بے نوری کا ماتم کرنا پڑے گا۔
اپنی طنزیہ تحریر میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ آج کل خان صاحب، اسلامی جمہوریہ پاکستان، جسے وہ ریاست مدینہ کہتے ہیں، کے وزیراعظم کی حیثیت میں تحمل، برداشت، فراخ قلبی، وضعداری، اسلامی اخلاقیات، مشرقی روایات، جمہوری اقدار اور آئینی مسلمات کا جو بے مثال مظاہرہ کر رہے ہیں وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔
آج بقول ان کے ساری دنیا انہیں بے دخل کرنے کے در پے ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن صبح سے شام تک اسی ادھیڑ بن میں رہتا ہے کہ عمران خان کا توڑ کیسے کیا جائے جس کی قیادت میں پاکستان ہر پہلو سے ایک ناقابل تسخیر عالمی قوت بنتا جا رہا ہے۔ یہی حال برطانیہ اور فرانس سمیت دوسرے ممالک کا ہے۔ یورپی یونین کو تو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں کہ خان بدستور پاکستان کا وزیراعظم رہا تو یورپ انبوہ خس و خاشاک ہو کر رہ جائے گا۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ سندھ ہاؤس میں پناہ گزیں پی ٹی آئی کے ارکان کا الزام، براہ راست آصف علی زرداری کے سر تھوپا جا رہا ہے لیکن یہ سب کیا دھرا خان کی مخالف عالمی طاقتوں کا ہے۔ ان عالمی طاقتوں کے سفارت خانے براہ راست سندھ ہاؤس پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ شنید ہے کہ اگر شیخ رشید احمد کی تجویز پر سندھ میں گورنر راج لگا تو یہ سارے ”منحرفین“ امریکی سفارت خانے منتقل کر دیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں جو بائیڈن اور آصف علی زرداری مستقل رابطے میں ہیں۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ خان صاحب کے خلاف عدم اعتماد تک، جو بائیڈن نے اپنی تمام سرکاری اور نجی مصروفیات منسوخ کر دی ہیں۔
اس ضمن میں دنیا کی تمام استعماری طاقتیں ایک صفحے پر ہیں۔ لیکن عمران خان آہن و فولاد کی چٹان کی طرح ڈٹا ہوا ہے۔ پاکستان کے ”فتنہ گر عناصر“ اور مغربی استعمار بھول گئے ہیں کہ خان صاحب کے ”پیکر خاکی“ میں کیسی بجلیاں بھری ہیں۔ 2014 ء میں، چہار ماہی دھرنے کے دوران، ریڈ زون میں فاتحانہ داخلے، وزیراعظم ہاؤس کی ناکہ بندی، پی ٹی وی پر یلغار، پولیس افسران پر تشدد، بجلی کے بل نذرآتش کرنے، ٹیکس نہ دینے کا فرمان جاری کرنے، سول نافرمانی کی تلقین کرنے، رقوم کی ترسیل غیرقانونی ہنڈی کے ذریعے کرنے جیسے تاریخی اقدامات کیے۔ انتہائی ہنرمندی سے دوست ملک چین کے صدر کے دورۂ پاکستان کو سبوتاژ کیا۔
سو وہ بھارت کا دورہ کر کے واپس چلے گئے۔ کامل چار ماہ تک لوگوں نے دیکھا کہ خان صاحب کی آنکھوں سے چنگاریاں پھوٹ رہی ہیں، چہرہ فرط غضب سے تمتما رہا ہے، ماتھے پر سلوٹوں کا گھنا جال پھیلا ہوا ہے اور بدن کے انگ انگ سے خونخواری پھوٹ رہی ہے۔ اس سارے عرصے میں صرف اس شام خان صاحب کے ہونٹوں کے کنارے افق تا افق پھیل گئے تھے اور ایک بشاشت بھری فاتحانہ مسکراہٹ ان کے تمتماتے چہرے پر بکھر گئی تھی جب انہیں پنڈی کے ایک بڑے گھر سے ملاقات کی دعوت آئی تھی۔
عمران خان کی کہانی آگے بڑھاتے ہوئے عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ پھر وقت نے کروٹ لی۔ پاکستان کے عوام کے مقدر نے یاوری کی اور اگست 2014 ء میں آتشیں دھرنے دینے والے خان صاحب اگست 2018 ء میں وزیراعظم بن گئے۔ اب اس بات کو بھی ساڑھے تین برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ خان صاحب اپنے منشور اور وعدوں کے مطابق پاکستان کی تقدیر بدل ڈالنے کے بعد ایک بار پھر اسی ریڈ زون کا رخ کرنے چلے ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس میں خان صاحب کا ساڑھے تین سالہ قیام بھی ماندگی کا ایک وقفہ تھا۔ تھکن اتارنے کے بعد اب وہ وزیراعظم ہاؤس کے باہر جوہر دکھانے کو ہیں۔
اس دوران ان کی ”آتش بیانی“ ، ”آتش دہانی“ بلکہ ”لاوا فشانی“ تک پہنچ گئی ہے۔ وہ آئین و قانون کی نزاکتوں پر بھی اس قدر دسترس حاصل کر چکے ہیں کہ پاکستان بلکہ دنیا کا کوئی دوسرا قانون دان ان کی ہمسری نہیں کر سکتا۔ اسی قانونی بصیرت و بصارت کے بل بوتے پر جناب وزیراعظم نے آئین کے آرٹیکل 63 کی ایسی تشریح کی ہے جس سے کرۂ ارض کا کوئی دوسرا قانون دان اتفاق نہیں کرتا۔ آرٹیکل 63 کا اردو ترجمہ ہے ”انحراف کی بنیاد پر نا اہلیت“۔ اس عنوان ہی سے آشکار ہے کہ نا اہلیت کا عمل صرف پارٹی لائن سے ’انحراف‘ یعنی فلور کراسنگ کی بنیاد پر حرکت میں آئے گا، جس کی سزا جرم کے ارتکاب کے بعد ہی دی جا سکتی ہے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ جب اس معاملے پر سپیکر اسد قیصر نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی قانونی برانچ سے پوچھا تو وہاں سے بھی انہیں یہی رائے ملی کہ آئین کی رو سے سپیکر کا کردار تب شروع ہو گا جب کوئی رکن عملی طور پر فلور کراسنگ کا مرتکب ہو جائے گا اور اس کے خلاف عمران خان بطور پی ٹی آئی چئیرمین باضابطہ ایک ڈیکلریشن جاری کر دیں گے۔ تاہم عمران خان کی رائے اس سے بالکل مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جوں ہی کوئی رکن، ان کی حکم عدولی کا خیال فاسد اپنے دماغ میں لائے گا، اسی لمحے نا اہل ہو جائے گا۔ اس کے بعد نہ وہ ایوان میں داخل ہو سکتا ہے نہ ووٹ دے سکتا ہے۔ گویا، ان کے فہم قانون کے مطابق اگر کوئی شخص کہے کہ میں غربت سے تنگ آ کر چوری کرنا چاہتا ہوں، تو چوری سے پہلے ہی پکڑ کر اس کا ہاتھ قلم کر دینا چاہیے۔
اب طے پایا ہے کہ آرٹیکل (A) 63 کی وضاحت کے لئے حکومت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر رہی ہے۔ بقول عرفان صدیقی، مجھے تو اس میں عالمی سازش کی بو محسوس ہو رہی ہے۔ امکانی طور پر یہ سازش خان صاحب کے کسی مشیر کی بھی ہو سکتی ہے۔ ورنہ جب خان صاحب نے آئین کی تشریح کر دی ہے تو پھر سپریم کورٹ سے رجوع کی کیا تک ہے۔۔۔۔