الطاف حسین کے کیس میں فوج کی طاقت کا ذکر کیوں؟

لندن کی کنگسٹن کورٹ میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنے کے کیس کی سماعت کے دوران بارہ رکنی جیوری کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ناپختہ ہے اور اصل طاقت عوام۔کی بجائے فوج کے پاس ہے۔

خیال رہے کہ برطانوی پولیس نے الطاف ھسین کے خلاف 22 اگست 2016 کو لندن سے خطاب کے ذریعے لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں ٹیررازم ایکٹ 2006 کے تحت مقدمہ دائر کر رکھا ہے جس کی سماعت اب شروع ہو چکی ہے۔ الطاف حسین ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

4 فروری کو کیس کی سماعت کے دوران برطانوی مصنف ڈاکٹر نکولا خان جیوری کے سامنے ایک ماہر گواہ کے طور پر پیش ہوئیں اور پاکستانی سیاست میں تشدد کے عنصر پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے متحدہ مہاجر محاذ سے متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل ہونے والی جماعت کے قیام کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم عمومی طور تقسیم ہند کے موقع پر انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے۔

پاکستان کے قیام کے ابتدائی عشروں میں ہجرت کر کے آنے والوں کی اکثریت کراچی میں آباد ہوئی اور وہ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان کو ووٹ دیتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر نکولا نے بتایا کہ جب ستر کی دہائی میں پاکستان کی یونیورسٹیوں میں طلبا نے افغان جہاد کی وجہ سے ہتھیار اٹھانے شروع کیے تو الطاف حسین نے بھی آل پاکستان مہاجر سٹٹوڈنٹ آگنائزیشن کے نام سے تنظیم بنائی۔

الطاف نے 1984 میں مہاجر قومی محاذ کی بنیاد رکھی جسکے مطالبوں میں ایک مہاجروں کو پاکستان کی پانچویں قومیت تسلیم کرنا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے قیام کے بعد کراچی میں مہاجروں اور پٹھانوں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی۔ اس دوران فوج نے کراچی میں تشدد پر قابو پانے کے لیے فوجی آپریشنز کیے اور الطاف حسین 1992 میں پاکستان چھوڑ کی برطانیہ آ بسے۔

ڈاکٹر نکولا نے وکلا کے سوالوں کے جواب میں کہا کہ الطاف حسین نے لندن سے اپنی جماعت پر مکمل کنٹرول برقرار رکھا اور وہ ٹیلیفون کے ذریعے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر نکولا خان نے کہا کہ جب کراچی میں تشدد اپنے عروج پر تھا تو ایم کیو ایم سیاسی طور پر بہت کامیاب ہوئی اور وہ 1988 کے عام انتخابات میں ملک کی تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ ڈاکٹر نکولا خان نے جیوری کو بتایا کہ ایم کیو ایم نے مقامی حکومتوں کے انتخاب میں بھی بھرپور کامیابی حاصل کی جس کے بعد مصطفی کمال کو کراچی کا میئر چنا گیا۔

ڈاکٹر نکولا خان نے بتایا کہ 2015 میں رینجرز نے ایم کیو ایم کے ہیڈکواٹرز نائن زیرو پر چھاپا مارا۔ انھوں نے کہا نائن زیرو پر چھاپے کی کارروائی کو مقامی ٹی وی چینلوں پر براہ راست نشر کیا گیا جو ایم کیو ایم کے کارکنوں کے لیے شرمندگی کا باعث تھا۔ نکولا خان نے کہا کہ ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹرز نائن زیرو پر پاکستان رینجرز کا چھاپہ الطاف کی جانب سے سینیٹ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حمایت کے اعلان کے ایک روز بعد مارا گیا تھا۔

ایم کیو ایم کے تنظیمی ڈھانچے کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر نکولا خان نے کہا کہ ایم کیو ایم کے تین ونگز ہیں جن میں سیاسی ، عسکری اور فلاحی شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کا فلاحی ونگ خدمت خلق کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ ایم کیو ایم نے کبھی بھی اپنے عسکری ونگ کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

نکولا نے کہا کہ پاکستانی پریس میں ایم کیو ایم کو بہت برا بھلا کہا جاتا ہے اور پاکستان سیاستدان ایم کیو ایم سے نفرت کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ نکولا نے جیوری کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے تین ججوں نے اپنے ایک حکم میں پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو حکم دیا کہ وہ لندن سے الطاف کی تقاریر رکوائے جس پر پیمرا نے کامیابی سے عمل درآمد کروایا۔

کیا بی ایل اے اور ٹی ٹی پی نے مل کر پنجگور میں حملہ کیا؟

اب پاکستان میں الطاف کی تقریر نشر کرنے یا انکی تصویر دکھانے پر پابندی ہے۔ جب نکولا سے پوچھا کہ کیا وہ جانتی ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے والے کون تھے اور ان کی پشت پناہ کون کر رہا تھا، تو انھوں نے لاعملی کا اظہار کیا۔

ڈاکٹر نکولا خان نے کہا کہ یہ فیصلہ الطاف حسین کی 22 اگست 2016 کی تقریر کے بعد کیا گیا جس میں انہوں نے فوج کو برا بھلا کہا تھا لیکن بعد ازاں معافی بھی مانگی تھی۔ ڈاکٹر نکولا خان نے ایک سوال کے جواب میں اتفاق کیا کہ پاکستان رینجرز کی ماورائےعدالت قتل کرنے کی ایک تاریخ رہی ہے اور اس پر ایم کیو ایم کے کارکنوں کی ماورائے عدالت قتل کے الزامات ہیں۔

ڈاکٹر نکولا نے کہا کہ ایم کیو ایم کو دبانے کے لیے تمام طریقے استعمال کیے گئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم بھی معصوم نہیں ہے اور اس نے ریاست کی طاقت کی نشانیوں پر حملے کیے۔ انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے پولیس سٹیشنوں اور پولیس اہلکارو ں پر حملے کیے۔

ڈاکٹر نکولا خان نے کہا کہ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین اپنی کئی تقریروں میں کہہ چکے ہیں کہ اپنے حقوق کو حاصل کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ نکولا خان نے کہا کہ سرکاری ملازمتوں میں شہری اور دیہی علاقوں کا کوٹہ مقرر کرنے اور صوبہ سندھ کے سرکاری دفاتر میں سندھی زبان کے استعمال سے متعلق قوانین نے کراچی کے لوگوں کو بہت ناراض کیا۔

انھوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کے دفاتر میں سندھی زبان کے استعمال کے قانون کو تو احتجاج کے بعد ختم کر دیا گیا تھا لیکن کوٹہ سے متعلق قانون پر عمل درآمد ہوا جس کی وجہ سے غیر مہاجر لوگوں کو سندھ اربن کے کوٹے سے بہت سی ملازمتیں مل گئیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستانی معاشرہ متشدد ہے اور اس معاشرتی تشدد کا اظہار پاکستانی سیاستدانوں کی تقریروں میں ہوتا ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے نکولا نے پاکستان سیاست دانوں کی تقاریر کا سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقاریر سے موازنہ کیا ہے۔

نکولا خان نے اس رائے سے اتفاق کیا کہ ایم کیو ایم نے ذرائع ابلاغ کو دبانے کے لیے دھونس کا استعمال کیا ہے اور کراچی میں کاروباری حضرات سے بھتہ بھی وصول کیا۔ نکولا خان کا کہنا تھا کہ ایک وقت تھا جب کراچی کے نوجوانوں کے لیے ایم کیو ایم میں شمولیت بہت پرکشش تھی کیونکہ انھیں طاقت کا احساس ہوتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ 2016 میں کراچی پر ایم کیو ایم کا اثر بہت کم ہو چکا تھا اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم ختم ہو چکی ہے۔ الطاف حسین کے خلاف اس کیس کی کاروائی جاری ہے اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہورہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ الطاف قصور وار قرار پاتے ہیں یا بری ہو جاتے ہیں؟

Back to top button