کراچی اور لاہور کی پولیس چوروں ڈاکوؤں کے سامنے بے بس کیوں؟

آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے دو سب سے بڑے شہروں کراچی اور لاہور میں پولیس کی نااہلی کے باعث سٹریٹ کرائم میں ہوشربا اضافہ ہو گیا ہے۔ دونون میٹرو پولیٹن شہروں میں سٹرئٹ کرائمز کے دوران گاڑیاں اور موٹر سائیکل چھیننے اور چوری کے ڈاکے کے بڑھتے ہوئے واقعات نئے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔

حکومت سندھ نے دہشت گردی، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کے مثبت نتائج آنے کے بعد سٹریٹ کرائم کے خلاف بھی ٹارگٹڈ آپریشن کا آغاز کیا ہے تاہم صورتحال بدستور خراب ہے۔

پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 58 دنوں میں کراچی میں 15 ڈاکو پولیس مقابلوں میں مارے گئے ہیں جبکہ 149 زخمی ہوئے، اس کے علاوہ 1500 کے قریب چور اور ڈاکوگرفتار بھی ہوئے ہیں لیکن جرائم کی تعداد میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں بھی جرائم کا گراف دن بدن بڑھنے لگا یے اور شہر میں یکم مارچ کو ایک ہی دن میں 347 وارداتیں رپورٹ ہوئی ہیں۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق لاہور میں 28 فروری کو 316 اور یکم مارچ کو 347 اسٹریٹ کرائمز، چوری اور ڈاکے کی وارداتیں وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔

لاہور پولیس کے مطابق مطابق شہر میں ایک ہی دن میں ڈاکوؤں نے مختلف علاقوں میں 4 دکانیں اور ایک گھر لوٹ لیا، 2 موٹر سائیکلیں گن پوائنٹ پر چھینی اور 50 چوری کی گئیں جب کہ 7 گاڑیاں بھی چرائی گئیں۔

پولیس کا بتانا ہے کہ ایک ہی دن میں اسٹریٹ کرائم کی 21 اور چوری کی 257 وارداتیں ہوئیں، چوری کی وارداتوں میں ایک کروڑ روہے سے زائد مالیت کی نقدی اور سامان لوٹا گیا جب کہ راہزنی کی وارداتوں کے دوران 15 لاکھ روپے سے زائد کا کیش چھینا گیا۔

سندھ کے دارالحکومت کراچی میں سٹریٹ کرائمز کی تشویش ناک صورت حال کے حوالے سے پولیس چیف غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ ’کراچی ایک بڑا شہر ہے جہاں عادی مجرم بھی ہیں، پولیس کے پاس عادی مجرموں کا جو ریکارڈ موجود ہے اس کے مطابق گیارہ ہزار ملزم ہیں۔

ہو سکتا ہے سٹریٹ کرائم میں ملوث افراد کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو۔ ان میں سے تقریباً تین ہزار جیل میں باقی ضمانت پر ہیں یا بری ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پانچ سے سات ہزار لوگ اب بھی سرگرم ہیں۔

کراچی پولیس سربراہ کے مطابق دوسرے نمبر پر سرگرم مجرموں میں منشیات کے عادی افراد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے منشیات کے عادی افراد جن کو ان کے گھر والے بھی نہیں رکھتے وہ زندہ رہنے اور اپنے نشے کی لت کو پورا کرنے کے لیے جرائم کرتے ہیں۔ ان میں سے کوئی معمولی نوعیت کے جرم جیسے گٹر کے ڈھکن چوری کرتا ہے تو کوئی راہزنی کرتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ایک اندازے کے مطابق شہر میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 30 سے 40 ہزار کے قریب ہے۔ اگر ان میں سے دو ہزار بھی وارداتیں کریں اور ہم ان کا اندراج کریں تو یہ جرم کی بڑی تعداد بن جاتی ہے لیکن رجسٹرڈ کرائم دس فیصد سے بھی کم ہے۔

غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ شہر میں بڑھتے جرائم کی تیسری وجہ غیر مقامی جرائم پیشہ افراد ہیں جو ایک شہر سے دوسرے شہر میں جا کر واردات کرتے ہیں اور پولیس کی گرفت سے نکل جاتے ہے جس کے بعد ان کا تعاقب کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے لیکن پولیس نے اس سلسلے میں بھی ان کو پکڑنے کی کوششیں کی ہیں۔

واضح رہے کہ کراچی میں پولیس سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنوں اور جہادی تنظیموں کے ہمدروں کو بھی ڈکیتیوں کی وارداتوں میں گرفتار کر چکی ہے۔ غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ کرائم، دہشت گردی اور سیاست کو آپ الگ نہیں کر سکتے ۔

ہمارے خطے میں یہ چیزیں ایک ساتھ چلتی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ماضی میں اس قسم کی سرگرمیاں ہوتی تھیں لیکن اس وقت کوئی ٹھوس شواہد نہیں لیکن اس کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔

کراچی کی سٹیزن پولیس لیزان کمیٹی کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2021 سے لے کر جنوری 2022 تک 55 ہزار سے زائد افراد موٹر سائیکلوں سے محروم ہوئے جن میں سے زیادہ تر چوری ہوئیں۔

کراچی میں موٹر سائیکلوں کی کتنی تعداد ہے اس کے اعداد و شمار تو دستیاب نہیں مگر موٹر سائیکل ڈیلرز ایسوسی ایشن کے مطابق روزانہ 700 سے ایک ہزار کے درمیان نئی موٹر سائیکلیں سڑک پر آتی ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق چوری شدہ یا چھینی گئی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں فروخت کر دی جاتی ہیں۔

گزشتہ چند برسوں میں کراچی شہر میں جو سینکڑوں فور ویل گاڑیاں چوری یا چھینیں گئیں، ان میں سے اکثر بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں فروخت کی گئیں یا آئل اینڈ گیس کمپنیوں کو کرائے پر دے دی گئیں۔

اس کے علاوہ ’کراچی کی بھی سپیئر پارٹس کی بڑی مارکیٹ ہے، موٹر سائیکل منٹوں میں پارٹس میں تبدیل ہو جاتی ہے اور پارٹس کسی ایک مقام پر نہیں ہوتے جس کے باعث پولیس کے لئے مال مسروقہ بازیاب کروانا ممکن نہیں رہتا۔

واضح رہے کہ کراچی میں سیف سٹی منصوبہ بھی کئی سالوں سے التوا کا شکار ہے، جس کے تحت اہم مقامات اور شہر کے داخلی راستوں پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہونے تھے۔

کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ قانون بنایا گیا تھا کہ بڑی فیکٹریوں، شاپنگ پلازہ، ریستورانوں میں کیمرے لگائے جائیں گے۔

پیکا کی منسوخی کے لئے قومی اسمبلی میں قرارداد جمع

جس کے تحت 31 ہزار کیمرے لگائے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ ہر کرائم کی سی سی ٹی وی فوٹیج آ رہی ہے پہلے یہ کلچر نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘جرم کی وزیبلٹی تو ہو اس سے تحقیقات میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔

Why Karachi and Lahore police helpless in the face of thieves and robbers? video news

Back to top button