بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی میں تیزی کیوں؟
گزشتہ برس افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر نے جنم لیا ہے جس کی بنیادی وجہ طالبان کے ہم خیال عسکریت پسندوں کی پاک افغان بارڈر سے بلا روک ٹوک پاکستان میں آمد قرار دی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ چند مہینوں سے پاکستان دو اطراف سے دہشت گرد حملوں کی زد میں ہے۔ ایک جانب تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی دہشت گرد حملے کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف بلوچستان میں قوم پرست علیحدگی پسند اپنی کارروائیوں میں مصروف ہیں جن کا ہدف سکیورٹی فورسز اور چین کے اشتراک سے چلنے والے منصوبوں کو نشانہ بنانا ہے۔
سیکیورٹی ماہرین سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے طالبان دہشتگرد اور بلوچ عسکریت پسندوں کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ طالبان حکومت بھی ان کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ عسکری ماہرین کا ماننا ہے کہ تحریک طالبان کے دہشت گردوں کی پناہ گاہیں آج بھی افغانستان کے اندر موجود ہیں۔
اگرچہ پاکستان نے کوشش کی کہ افغانستان کی موجودہ حکومت ان پناہ گاہوں کو ختم کردے لیکن افغان طالبان پاکستان کو وہی جواب دے رہے ہیں جو پاکستان امریکہ کو افغان طالبان کے حوالے سے دیا کرتا تھا، یعنی کہ ہم ان کے خلاف فوجی کارروائی نہیں کر سکتے تاہم ان کے ساتھ مذاکرات کرنے میں آپ کی مدد کرسکتے ہیں۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان کے ایماء پر تحریک طالبان والوں سے مذاکرات کرکے بھی دیکھ لیے جو ناکامی کا شکار ہوئے۔ مبصرین کے خیال میں یہ حقیقت ہے کہ افغان طالبان اگر ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کارروائی کرتے ہیں تو ان کے نچلی سطح کے جنگجووں کی طرف سے رد عمل آئے گا۔
جسٹس بندیال کی زیر قیادت اعلی عدلیہ کتنی آزاد ہوگی؟
اور طالبان کی اعلی قیادت کو اس کا ادراک ہے۔ اس لیے وہ اگر چاہیں بھی تو ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے پاس یہی آپشن ہے کہ طالبان پر سفارتی دباؤ برقرار رکھےکہ وہ افغان سرزمین ایک بار پھر دہشت گردوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔
بعض ماہرین کے خیال میں سفارتی دباؤ برقرار رکھنے کے علاوہ پاکستان کے پاس کچھ دوسرے راستے بھی ہیں، جن پر پاکستان عمل کر رہا ہے اور ان میں سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ افغانستان کے اندر ٹی ٹی ُپی کی جو پناہ گاہیں ہیں انہیں براہ راست یا بالواسطہ طور پر نشانہ بنایا جائے۔ اور اس کا نتیجہ بھی سامنے آرہا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں ٹی ٹی پی کے کئی کمانڈروں کو مار دیا گیا ہے اور تنظیم کی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت کو کم کیا گیا ہے۔
لیکن ریاست پاکستان کو صرف طالبان کی مسئلہ ہی درپیش نہیں بلکہ حالیہ دنوں بلوچستان کے اندر بھی بلوچ علیحدگی پسندوں کے حملوں میں شدت آ رہی ہے اور یہ سمجھا جارہا ہے کہ یہ لوگ نہ صرف سکیورٹی فورسز کو بلکہ پاکستان اور چین کے اشتراک سے چلنے والے منصوبوں کو بھی اپنا اہم ہدف سمجھتی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ بلوچ عسکریت پسند بھی کارروائیاں کرنے کے بعد سرحد پار چلے جاتے ہیں اور اکثر اوقات افغانستان یا ایران میں روپوش ہو جاتے ہیں۔
دفاعی مبصرین کے خیال میں ان ہزاروں بلوچ عسکریت پسندوں کے پاس جو افغانستان سے واپس آئے ہیں،دو ہی راستے تھے کہ یا تو بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں چھپ چھپا کر گمنامی کی زندگی گزاریں یا جارحانہ انداز میں ریاست پاکستان اور اس کے اداروں پر حملے کریں۔ اور انہوں نے بظاہر دوسرے راستے کا انتخاب کیا ہے۔
ان حالات میں جب کہ ان عسکریت پسندوں کے لیے اب پاکستان سے باہر بھاگ کر پناہ لینے کی کوئی دوسری جگہ نہیں ہے۔ نہ تو افغان طالبان انہیں پناہ دینے کے لیے تیار ہیں، نہ چین سے بہتر ہوتے تعلقات کے سبب ایران اپنے سرحدی علاقوں میں انہیں پناہ دے گا۔ ماہرین سمجھتے ہیں کہ ان عسکریت پسندوں کی بیرونی حمایت کا سلسلہ اب ختم ہو چکا ہے اور اس اعتبار سے ان عسکریت پسندوں کے خلاف بلوچستان میں کارروائی اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ اور اگر اس سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پھر شاید پاکستان کو یہ موقع نہ مل سکے۔