بلوچ دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے فوجی آپریشن ضروری کیوں ہو گیا؟

بلوچستان میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کے بعد ہمارا جو بھی دشمن مشرقی پاکستان جیسے ایک اور سانحے کی امید لگائے بیٹھا ہے، اسے مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا. اگرچہ بلوچستان اور مشرقی پاکستان کے حالات میں محرومیوں اور گلوں شکووں کی حد تک کچھ مطابقت ضرور ہے لیکن خاطر جمع رکھئے، اس بار کسی سقوط کا قطعاً کوئی امکان نہیں۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں معروف تجزیہ کار بلال غوری ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان اور بلوچستان کے زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کی اکثریت تھی مگر بلوچستان میں صرف بلوچ آباد نہیں ہیں۔ وہاں بلوچوں کے علاوہ پشتون اور دیگر کئی قومیتوں کے لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
بلوچوں میں سے بھی خفا ہونے کے باوجود سب لوگ علیحدگی کی اس پرتشدد تحریک کا حصہ نہیں ہیں بلکہ بیشتر کا خیال ہے کہ بم دھماکوں اور دہشت گردی کے ذریعے بلوچ لبریشن آرمی ان کی پر امن جدوجہد کو نقصان پہنچا رہی ہے جس سے منزل دور ہوتی جارہی ہے۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ کچھ دن پہلے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ پنجابی اچھے مقتول ہیں، کیونکہ جو انہیں قتل کرتا ہے، یہ ان کی عزت کرتے ہیں۔ چند برس قبل جب سردار ثنااللہ زہری وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے بھی مجھے یہی بات کہی تھی۔ یہ کسی ایک شخص کی رائے نہیں بلکہ بیشتر بلوچ سرداروں کا اتفاق ہے کہ جس طرح کی آزادی انہیں پاکستان میں میسر ہے،
ایران کے بلوچ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ایک اور بڑا فرق جغرافیے کا ہے۔ آپ بنگلہ دیش کا نقشہ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان بھارت حائل تھا۔ کوئی زمینی راستہ نہیں تھا، فضائی سفر کے دوران بھی بھارتی حدود سے گزرنا پڑتا تھا۔ جب بھارتی طیارہ ’’گنگا‘‘ اغوا ہونے کے بعد بھارتی فضائی حدود کے استعمال پر پابندی عائد ہو گئی تو صورتحال مزید گھمبیر ہوگئی۔
وہ بتاتے ییں کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان فاصلوں کے سبب تازہ دم فوجی دستے، اسلحہ اور دیگر ساز وسامان پہنچانا آسان نہیں تھا، لیکن یہاں بلوچستان میں صورتحال یکسر مختلف ہے، اس لئےکوئی بھی لشکر یا فوج ریاست کو شکست دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ میں بھارت نے مرکزی کردار اداکیا۔مکتی باہنی کی ٹریننگ، مالی امداد اور اسلحہ ہی نہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر بھارتی فوج مشرقی پاکستان میں داخل ہو گئی کیونکہ سرحدیں ملتی تھیں، باغی ہو جانے والے بنگالی بھارت جاکر پناہ لے لیا کرتے تھے اس لئے اسے مداخلت کا جواز میسر آ گیا۔
لیکن بلوچستان میں درپردہ علیحدگی پسندوں کی مدد کرنے کے باوجود بھارت کو کھلے عام مداخلت کرنے کا کوئی بہانہ میسر نہیں اور دونوں ملکوں کے ایٹمی طاقت ہونے کے باعث ایسا بھی کوئی امکان نہیں کہ کسی موقع پر بھارت اپنی فوج سامنے لے آئے اور حملہ کر دے
لہٰذا بلال غوری کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اس بات کا دور دور تک کوئی امکان نہیں کہ بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی کوشش کامیاب ہوسکے۔تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بلوچستان میں لگی آگ کو بجھانے کی کوشش نہ کی جائے۔
جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کئے جانے کے باوجود ایک بار پھر یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ بلوچوں کی داد رسی کی جائے اور اس معاملے کا سیاسی حل تلاش کیا جائے۔ میں ہمیشہ بلوچوں کیلئے آواز اُٹھاتا رہا ہوں۔ مگر میرے خیال میں فی الوقت سیاسی حال اور گفت و شنید کی بات کرنا عبث ہے۔
اختر مینگل اور ڈاکٹر عبدالمالک جیسے لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ معاملات ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ آپ سیاسی حل کی بات کرتے ہیں مگر پہاڑوں پر بیٹھے دہشتگرد کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔ ویسے بھی اس موقع پر سیاسی حل اور بات چیت کی پیشکش کرنے کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ ریاست نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ جب کسی مریض کو انتہائی تشویشناک حالت میں ہسپتال لایا جاتا ہے تو پہلے اسے ایمرجنسی منتقل کیا جاتا ہے اور فوری آپریشن کر کے زندگی بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب اس کی حالت سنبھل جائے تو پھر اسے وارڈ میں منتقل کر کے علاج شروع کیا جاتا ہے۔
بلوچستان میں بھی یہی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ پہلے ایک بھرپور فوجی آپریشن کے ذریعے ان سفاک دہشت گردوں کو ختم کیا جائے، پھر مذاکرات کیلئے سازگار ماحول فراہم کیا جائے اور جب فوجی کارروائی سے مہلت ملے تو سیاسی عمل کے ذریعے ثمرات سمیٹنے کی کوشش کی جائے۔
بلال کہتے ہیں کہ بعض افراد یہ اعتراض کرینگے کہ اس سے پہلے بھی کئی آپریشن ہوچکے ہیں،آخر اس جاں بلب مریض کو کتنی بار سرجری کا سامنا کرنا ہوگا؟ مسئلہ یہ ہے کہ ماضی میں جب کسی آپریشن کے نتیجے میں حالات بہتر ہوئے تو حکومتوں نے دیرپا علاج شروع کرنے کے بجائے یہ سمجھ لیا کہ اب سب امراض ختم ہوگئے ہیں۔
چنانچہ کچھ عرصہ بعد صورتحال پھر سے خراب ہوجاتی ہے۔ فوجی آپریشن تب ہی مفید ثابت ہوگا جب اس سے ملنے والی مہلت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے لوگوں کے گلے شکوے دور کرنے کی کوشش کی جائے گی، بلوچوں کے حقیقی نمائندے اسمبلی میں آئیں گے، کرپشن ختم ہوگی اور ترقی و خوشحالی کے سفر کا آغاز ہوگا۔