بشری بی بی کو اسلام آباد میں گھیرنے کے بعد بھگایا کیوں گیا؟
معروف اینکر پرسن سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ تحریک انصاف والوں کے بار بار کے جھوٹ اب اتنے بڑھ چکے ہیں کہ انکے ڈی چوک پر 278 مظاہرین کے ہلاکت کے دعوے کو لوگ ایک لطیفے کی طرح آگے بڑھا کر لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ویسے بھی اتنے دن گزر جانے کے باوجود پی ٹی آئی والے اپنے دعوے کے حق میں نہ تو کوئی لاش سامنے لا پائے ہیں اور نہ ہی کوئی جنازہ دکھا پائے ہیں، انکی جانب سے ثبوت سامنے نہ لانے کا مطلب یہ ہے کہ انکے ڈی چوک پر ہلاکتوں کے دعوے کھوکھلے اور ماضی کی طرح جھوٹ کا پلندہ ہیں۔
روزنامہ جنگ میں اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ییں کہ تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران قانون نافد کرنے والے اداروں کے 6 اہلکار جاں بحق ہوئے جنکے جنازوں میں آرمی چیف سے لیکر وزیراعظم تک خود شریک ہوئے۔ تاہم تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس کے سینکڑوں لوگ ڈی چوک میں اپنی جانوں سے گئے، لیکن اب تک نہ تو ایسے کسی مرنے والے کی لاش سامنے آئی ہے، نہ ہی کوئی جنازہ دکھایا گیا ہے اور نہ ہی کوئی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔ حسب روایت غزہ میں اسرائیلی بمباری سے مرنے والے فلسطینیوں کی کچھ ویڈیوز ڈال کر ڈی چوک بنانے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ فورا ہی فیک ثابت ہو گئیں۔
سہیل وڑائچ کے مطابق اسلام آباد کے ہسپتالوں میں صرف 5 لاشیں رپورٹ ہوئیں۔ میری تجویز ہے کہ اس معاملے میں سچ جاننے کے لیے تحریک انصاف کے چیئرمین گوہر علی خان کی سربراہی میں کمیشن بنا دیا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ میرا شروع سے ہی یہ موقف ہے کہ جھوٹا خود اپنے ہی جھوٹ کےجال میں پھنس جاتا کیونکہ وہ اپنا دعویٰ ثابت نہیں کر سکتا، لہازا اس معاملے پر ایک کمیشن بنانا ضروری ہے۔
سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ 24 نومبر کو خیبر پختونخوا سے مارچ چلنا شروع ہوا تو اہل اقتدار کے فوراً کان کھڑے ہوگئے، دو چیزیں انکی نظر میں بہت خطرناک تھیں، ایک تو 35 ہزار افراد کا پرجوش ہجوم جس میں زیادہ تر نوجوان تھے اور دوسری طرف بشریٰ کی جلوس میں موجودگی، بشریٰ کا اہل اقتدار کے پاس نہ کنٹرول تھا اور نہ اس کا کوئی اندازہ تھا کہ وہ کیا کر ڈالے گی۔ یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ بشری کے فیصلے پی ٹی آئی کو لڑائی کی طرف بڑھائیں گے یا پھر آخر میں صلح کا راستہ نکلے گا؟
سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ اب ریاست کے پاس ایسے جدید آلات آ چکے ہیں کہ کسی ہجوم کا فضائی جائزہ لیکر بتایا جا سکتا ہے کہ اس کا سائز کتنا ہے، یہ آلات بالکل صحیح تعداد سے آگاہ کرتے ہیں۔ چنانچہ جب پی ٹی آئی کے مجمعے کی تعداد 35 ہزار ہونے کا اندازہ لگایا گیا تو ابتدائی طور پر سب کے ہاتھ پائوں پھول گئے تھے۔ جلوس والے حکومت کو تگنی کا ناچ نچانا چاہتے تھے جبکہ فوج انہیں جال میں پھنسانا چاہتی تھی۔ دونوں کے مقاصد واضح اور متضاد تھے۔
تحریک انصاف نے سفر شروع کیا تو انکا جذبہ یہی تھا کہ ہر صورت ڈی چوک پہنچنا ہے، دھرنا دینا ہے اورخان کو رہا کروا کے لانا ہے۔ پی ٹی آئی اپنی اسی منصوبہ بندی کے تحت رک رک کر اسلام آباد کی طرف بڑھ رہی تھی تاک لوگوں کی تعداد بڑھائی جا سکے۔ بشریٰ بی بی کی جذباتی تقریروں نے مجمع کو بھڑکائے رکھا ،دوسری طرف اہل اختیار بھی جال تیار کئے بیٹھے تھے کہ جھانسی کی رانی کو جھانسہ کیسے دینا ہے، چنانچہ تیاری کی گئی کہ انہیں بار بار روکا جائے تاکہ مظاہرین تھک جائیں۔ حکومتی حکمت عملی یہ تھی کہ جکوس کا مقابلہ نہیں کرنا بلکہ اسے روکنا ہے ،اگر لڑائی کی نوبت آئے تو پیچھے ہٹنا ہے ،یوں جوش بھرے جلوس کو لڑتے بھڑتے ناکے پار کراتے اسلام آباد کے قریب آنے دیا گیا۔ یہاں تحریک انصاف اور بشریٰ بی بی نے ریاست کو ایک زبردست سرپرائز دیا۔
سہیل وڑائچ کے بقول ریاست کی تیاری یہ تھی کہ جلوس ایک دن بعد ڈی چوک پہنچے گا مگر مظاہرین نے شدید دبائو ڈالا اور حکومت کی توقعات کے برخلاف ایک دن پہلے ہی ڈی چوک پہنچ گیا۔ اس حیران کن اور تیز ترین اقدام سے وقتی طور پر فیصلہ ساز پریشان ہو گئے۔ اصل میں ان کی حکمت عملی یہ تھی کہ مظاہرین کو تھکایا جائے اور دوسرا انہیں زیادہ سے زیادہ بھوکا رکھا جائے اسی لئے راستے میں موجود تمام کھانےپینے کی دکانیں بند کر دی گئی تھیں۔ منصوبہ یہ تھا کہ ڈی چوک کے پھندے میں بھوکے اور تھکے ہوئے مظاہرین پہنچیں گے تو ان سے نمٹنا آسان ہو گا۔ اگر راستے میں آپریشن ہوتا تو لوگوں کی تعداد ذیادہ ہونے کی وجہ سے جانی نقصان کا اندیشہ تھا ،اسلئے یہی سوچا گیا کہ ڈی چوک کا پھندا سب سےبہتر رہے گا۔ دوسری طرف اسلام آباد میں داخل ہوتے ہی بشریٰ اور مظاہرین کے حوصلے بلند ہوگئے انہیں لگا کہ وہ فتح یاب ہو چکے ہیں۔ ہرطرف سے بی بی کے لئے واہ واہ کا شور اٹھ رہا تھا، فتح کے پھریرےلہرا رہے تھے۔ ہم میڈیا والے یہ تاثر دے رہے تھے کہ جذبہ جنون جیت گیا یے اور ناکے اور پابندیاں ہار گئیں۔ یعنی پی ٹی آئی جیت چکی، اور ریاست ہار چکی۔
لیکن اس دوران مسلسل ہجوم کی مانیٹرنگ بھی جاری رہی، ڈی چوک پہنچنے تک مظاہرین کی تعداد 30 سے 35 ہزار تک قائم رہی۔ سات سے آٹھ بجے کے دوران ریاست اور حکومت کے اعلیٰ فیصلہ سازوں کا ایک اہم اجلاس ہوا جس میں صورت حال کا جائزہ لیا گیا اور حتمی طور پر یہ فیصلہ کرلیا گیا کہ آج رات ہی آپریشن ہونا ہے۔ اسی دوران رات 9 بجے فضا میں اڑنے والے ہیلی کاپٹر نے اطلاع دی کہ مجمع چھٹنا شروع ہو گیا ہے اور اب مظاہرین کی تعداد 35 ہزار سے کم ہو کر 15 ہزار رہ چکی ہے۔ چنانچہ فوری طور پر آپریشن کی تیاری شروع کر دی گئی، طے یہ ہوا کہ جب ہجوم 8 سے 10 ہزار رہ جائے تب آپریشن کا آغاز کیا جائے، فیصلہ سازوں کو یہ احساس ہوا کہ اگر مظاہرین تھک چکے ہیں تو ان سے نبرد آزما پولیس اور رینجرز کے لوگ اور بھی زیادہ تھک چکے ہیں ،اسی لئے ان سے آپریشن کروانے میں ناکامی کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ 2500 سے 3000 تک تازہ دم دستے میدان میں اترے گے گئے، مجمع گاہ کے ارد گرد کی روشنیاں بجھا دی گئیں، چونکہ آس پاس کے ریستوران اور کھانے پینے کی دکانیں مکمل طور پر بند تھیں اسلیے مظاہرین بھوکے بھی تھے اور تھکے ہوئے بھی تھے، یہی وہ لمحہ تھا جب آپریشن شروع کیا گیا۔
اس وقت حکومت کی جانب سے ایک اور فیصلہ بھی کیا گیا جس کے تحت گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کو یہ انفارمیشن لیک کر دی گئی کہ آپریشن بس شروع ہونے ہی والا ہے، یہ خبر پاتے ہی دونوں نے ایک گاڑی میں بیٹھ کر نکلنے کی کوشش شروع کر دی جس پر انہیں ورکرز کی جانب سے مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ تاہم بشری اور گنڈا پور اپنا انقلاب سمیٹ کر موقع واردات سے مانسہرہ کی جانب روانہ ہو گے۔ رینجرز کے آپریشن کا آغاز آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں سے کیا گیا، فیصلہ یہ تھا کہ مظاہرین کو بھاگنے کا موقع دیا جائے گا، انکی پچھلی جانب کوئی پولیس فورس یا ناکہ نہیں تھا تاک وہ بھاگ سکیں۔
سہیل وڑائچ کے بقول جب سامنے سے 3 ہزار اہلکاروں پر مشتمل تازہ دم دستے نے ہلہ بولا اور آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلانا شروع کیں تو بھوکے اور تھکے ہوئے مظاہرین کے پاس سوائے پیچھے کو بھاگنے کے اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ یہاں ایک اور دلچسپ واقعہ بھی سنانے کے قابل ہے۔ بشریٰ بی بی کو علی امین گنڈا پور سمیت اسلام آباد سے نکلتے ہوئے سیکیورٹی فورسز نے شناخت کر لیا تھا، لیکن جب فیصلہ سازوں سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں گرفتار کر لیا جائے تو ایک سیانے وزیر نے مشورہ دیا کہ بالکل نہیں، نقاب پوش خاتون کو اپنے ہمراہی سمیت بھاگنے دیا جائے کیونکہ اگر وہ گرفتار ہو گئی تو ہیروئن بن سکتی یے، یہ توجیہہ پیش کی گئی کی انکی گرفتاری تو ہم کسی بھی وقت ڈال سکتے ہیں لہازا جلدی کس بات کی، آج صرف انہیں شکست کھا کر بھاگنے دیا جائے۔ یوں بشریٰ بی بی کی جرات و بہادری کے راستے میں ایک سیانے وزیر کا مشورہ آڑے آ گیا اور انہیں گنڈاپور کیساتھ مانسہرہ کی جانب نکل جانے دیا گیا۔ اس طرح یہ رزمیہ کہانی، ایک ہیرو کی بجائے ایک ولن پیدا کر کے تمام ہو گئی۔
عمران کسی بڑے احتجاج کی کال دینے کی پوزیشن میں کیوں نہیں رہے؟
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ڈی چوک آپریشن کے حوالے سے سب سے زیادہ زیر بحث موضوع حکمت عملی نہیں بلکہ انسانی جانوں کا ضیاع ہے، انسانی جان تو ایک بھی جائے تو ناقابل تلافی نقصان ہے مگر پی ٹی آئی اور اس کے حامی یوٹیوبر ز نے تواتر کے ساتھ اس قدر جھوٹ بولے ہیں کہ ان کے دعوئوں پر یقین کرنا مشکل ہے۔ یہ کام کلثوم نواز کی بیماری کو جھوٹا اور جعلی ثابت کرنے سے شروع ہوا اور اس کا آخری مرحلہ ایک نجی کالج کی طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کے جھوٹے واقعہ کی تشہیر سے ہوا، بار بار کے جھوٹ، ان کے سچ کو بھی دھندلانا شروع ہو گئے ہیں۔ اب یوتھیوں نے 278 ہلاکتوں کا بھونڈا دعوی کر دیا یے جس کے لطیفے بن رہے ہیں۔ جب تک پی ٹی آئی والے 278 لاشیں، ان کے جنازے اور دیگر ثبوت سامنے نہیں لاتے، انکے سب دعوے ماضی کی جھوٹی خبروں کا اعادہ ثابت ہونگے۔ جھوٹے خود ہی جھوٹ کے جال میں پھنس جاتے ہیں، اگر پی ٹی آئی والوں کو اپنا الزام ثابت کرنا ہے تو اسکے حق میں ثبوت سامنے لانا ہوں گے کیونکہ فیک نیوز کے دھندے میں آج کل سب مندہ ہے۔