تحریک انصاف کا چارٹر آف ڈیمانڈNROپلس کیوں قرار پایا؟

پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے حکومتی کمیٹی کو چارٹر آف ڈیمانڈ کے نام پر این آر او پلس مانگنے کے بعد مذاکراتی عمل کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ مبصرین کے مطابق مذاکرات کے تیسرے دور میں تحریک انصاف کی جانب سے درج مقدمات کی پیروی سے پیچھے ہٹنے اور دو انکوائری کمیشن کے مطالبات پر حکومت کے شدید تحفظات اور وزیراعظم کے سیاسی مشیر رانا ثنا کا چارٹر آف ڈیمانڈ کو ہی جھوٹ قرار دینا ظاہر کرتا ہےکہ حکومت کسی قیمت اور کسی بھی طور اس پر ان مطالبات پر پیشرفت کرنے کو تیار نہیں جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی نے اجلاس میں واضح کر دیا اگر یہ کمیشن نہ بنے تو ہم مذاکرات جاری رکھنے سے قاصر ہونگے ،یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی کمیشنز کی تشکیل کو حکومت کی کمزوری سمجھتے ہوئے دباؤ جاری رکھے گی جس کا لا محالہ نتیجہ مذاکراتی عمل کو ہمیشہ کیلئے لپیٹنے سے نکلے گا۔

 

تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت اور حزب اختلاف کے مذاکرات میں تحریک انصاف کے پیش کردہ مطالبات نے مذاکراتی عمل کی کامیابی کے امکانات کو معدوم کردیاہے سرکاری ٹیم کے ترجمان نے حزب اختلاف کے پیش کردہ چارٹر کو سرسری جائزے کے بعد ہی ناقابل عمل قرار دے دیا ہے۔ جس سے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے پیش کردہ مطالبات کو فریقین کے درمیان آئندہ ہونے والے رابطے پر بغیر کسی تردد کے یکسر مسترد کردیا جائے گا۔ مبصرین کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف جلد حلیف جماعتوں کی مشاورت سے پی ٹی آئی کے مطالبات بارے آئین و قانون کے ماہرین کی کمیٹی قائم کردیں گے جوان مطالبات کے تمام پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرے گی۔ جس کے بعد مطالبات بارے حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

 

تاہم حکومتی ذرائع کے مطابق سرکاری ٹیم نے بادی النظر میں حزب اختلاف کے مطالبات کومضحکہ خیز اور قانون سے نابلد ہونے کا مظہر قرار دیدیا ہے لیکن فوری اس مؤقف کو کھل کر پیش نہ کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت کا باضابطہ مؤقف آئندہ ہفتے حزب اختلاف کو سونپ دیا جائے گا جو تحریری جواب کی شکل میں ہوگا۔  حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف نے چارٹر آف ڈیمانڈ کی شکل میں حکومت سے این آر او پلس دینے کے لئے درخواست دی ہے جس کے آخری پیرے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے استدعا کی گئی ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنمائوں کے خلاف مقدمات میں حکومت ان کی پیروی میں استغاثہ کا موقف ہٹالے تاکہ ان کی رہائی اور بریت کی راہ ہموار ہوجائے۔ ذرائع نے یاد دلایا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے حریفوں کو جو رعایت دی تھی جس کو پی ٹی آئی قیادت این آر او پکارتی ہے وہ بھی سراسر اسی مفہوم سے عبارت تھی۔  ایسے میں جب پی ٹی آئی مقدمات میں اس طرح کا ریلیف مانگ رہی ہے تو پھر خود ہی بتا دے کہ اگر یہ این آر او نہیں تو پھر این آر او اور کسے کہتے ہیں۔

مذاکرات سے نہ حکومت بدلے گی اور نہ ہی عمران رہا ہو پائیں گے؟

 

تاہم یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے این آر او کا باقاعدہ مطالبہ کئے جانے کے بعد کیا حکومت اور اپوزیشن کے مذاکراتی عمل پر پیشرفت ہوگی؟ پی ٹی آئی انکوائری کمیشن کی تشکیل کو بنیادی اور مرکزی نکتہ قرار دینے کا جواز کیا ہے اور کیا وجہ ہے کہ حکومت کمیشن پر مذاکراتی عمل سے گریزاں اور پی ٹی آئی مذاکراتی عمل جاری رکھنے پر اصرار کر رہی ہے؟

 

سینئر صحافی سلمان غنی کے مطابق تیسرے اجلاس میں پی ٹی آئی نے حکومت کو باضابطہ چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کر دیا جسکے اہم نکات میں اہم رہنماؤں کارکنوں کی رہائی، 9مئی اور 26نومبر کے واقعات پر کمیشن کی تشکیل ہے ، حکومت نے یقین دہانی کرا دی کہ ہم ان نکات پر باضابطہ جواب دینگے، اس پر وزیراعظم نے کمیٹی بنا دی ہے لیکن مذکورہ صورتحال میں رانا ثنا کی پریس کانفرنس اور چارٹر آف ڈیمانڈ کوخصوصاً جھوٹ کا پلندہ قرار دینا ظاہر کرتا ہے کہ کوئی ایسی بات ضرور ہوئی ہے جس سے مذاکرات کے خواہاں رانا ثنا جیسا شخص مذاکراتی عمل سے نالاں اور اپوزیشن کے چارٹر کو ٹارگٹ کرتا نظر آیا اور اگر چارٹر کا جائزہ لیا جائے تو بلاشبہ انہوں نے انتخابات کی حیثیت اور اپنے کارکنوں کی فہرست فراہم نہیں کی جس پر رانا ثنا کا کہنا تھا کہ اپوزیشن ان مطالبات سے دستبردار ہو چکی ہے جبکہ حکومت اس حوالے سے پریشان ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر اپوزیشن کے مقتدرہ سے رابطے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر مذاکرات فریقین کے درمیان نظر آ رہے ہیں لیکن اس عمل میں تیسرا فریق بھی پس پردہ سرگرم عمل ہے۔ انکے مطابق مذاکرات کے عمل پر حکومت کے تحفظات ہیں ۔

 

ادھر بانی پی ٹی آئی نے جیل میں اخبار نویسوں سے بات چیت میں مسلح افواج کے سربراہ کے ساتھ پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر کی وزیراعلیٰ پختونخوا کے ہمراہ ملاقات کی تصدیق کر کے نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے تاہم سکیورٹی ذرائع کے مطابق بیرسٹر گوہر نے سیاسی معاملات پر بات چیت کی کوشش کی لیکن انہیں جواباً بتا دیا گیا کہ سیاسی معاملات پر بات چیت سیاستدانوں سے کریں۔ ماہرین کاکہناہے کہ جو کچھ ماضی میں حکومت میں ہوتے ہوئے پی ٹی آئی کیساتھ جو کچھ ہوا وہی اب پی ٹی آئی مسلم لیگ ن کے خلاف کرنے کے لئے کوشاں ہے لیکن کیا یہ عمل کامیاب ہو سکے گا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا البتہ پس پردہ کچھ چلنے والے معاملات پر خود ن لیگ الرٹ ضرور ہو چکی ہے اور مذاکراتی عمل پر رانا ثنا کے ردعمل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے البتہ گزشتہ روز سامنے آنے والے کچھ واقعات سے یہ اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے پس پردہ کچھ چیزیں چل رہی ہیں اسکے اثرات قومی سیاست اور خصوصاً مذاکراتی عمل پر ضرور پڑیں گے ،نئی پیدا شدہ صورتحال کے اثرات چند روز میں ضرور ظاہر ہونگے ، ایسا محسوس ہو رہا ہے مذاکراتی عمل کی نتیجہ خیزی دھری رہ جائے گی ،خود حکومت دو کمیشنز کے قیام کو جواز بناکر مذاکرات سے راہ فرار اختیار کر سکتی ہے البتہ بڑا سوال خود حکومت کیلئے یہ ہوگا کہ وہ جن کیلئے کمیشن پرسخت مؤقف اختیار کرتی نظر آ رہی ہے کیا اس اہم اور حساس ایشو پر وہ ان کے ساتھ ہونگے یا نہیں یہ بہت اہم ہوگا۔

Back to top button