پنجاب اسمبلی کے اراکین کی تنخواہ 75 ہزار سے 4 لاکھ کیوں کی گئی؟
ملک کے سیاسی و عوامی حلقوں میں پنجاب کے ارکانِ اسمبلی، وزرا اور مشیران کی تنخواہوں میں اضافے کا معاملہ موضوعِ بحث ہے۔ جہاں عوام سوشل میڈیا پر حکومت کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں وہیں اپوزیشن جماعتیں بھی اس حکومتی فیصلے پر سوال اٹھا رہی ہیں۔ تاہم مبصرین کے مطابق ملک کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے اس فیصلے پر عوامی سوالات اور اعتراضات حق بجانب ہیں جنہیں قطعا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اراکین اسمبلی اور وزراء و مشیران کی تنخواہوں میں اضافے سے مہنگائی کے ستائے عوام کا غم و غصے مزید بڑھے گا جس کا نون لیگ کو جہاں سیاسی نقصان ہو گا وہیں اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا خمیازہ پنجاب کے عوام کو اضافی ٹیکسز کی مد میں برداشت کرنا پڑے گا۔ یعنی مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام پر اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا بوجھ بھی لاد دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ پنجاب اسمبلی نے کثرت رائے سے اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں کئی گنا اضافے کی منظوری دے دی ہےاسمبلی سے پاس ہونے والے بل کے مطابق اراکین پنجاب اسمبلی کی تنخواہ 76 ہزار روپے سے بڑھا کر چار لاکھ روپے کردی گئی ہے۔
اسی طرح صوبائی وزرا کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر نو لاکھ 60 ہزار روپے کی گئی ہے۔بل کی منظوری کے بعد اب اسپیکر پنجاب اسمبلی کی تنخواہ ایک لاکھ 25 ہزار روپے سے بڑھ کر نو لاکھ 50 ہزار روپے جب کہ ڈپٹی اسپیکر کی تنخواہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے سے بڑھ سات لاکھ 75 ہزار روپے ہوگی۔اِسی طرح پارلیمانی سیکرٹریز کی تنخواہ 83 ہزار روپے سے بڑھا کر چار لاکھ 51 ہزار روپے اور اسپیشل اسسٹنٹ کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر چھ لاکھ 65 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔بل میں صوبائی حکومت کے مشیروں کی تنخواہ میں بھی اضافہ کیا گیا ہے اور اسے ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر چھ لاکھ 65 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ اراکین اسمبلی اور وزرا کی تنخواہوں میں یہ اضافہ ان کی بنیادی ماہانہ تنخواہ پر کیا گیا ہے۔ ان کو ملنے والا ٹی اے ڈی اے، فری میڈیکل، رہائش اور دیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں۔
پنجاب اسمبلی اراکین،وزراء اور مشیران کی تنخواہوں میں اضافے بارے سیاسی و عوامی حلقوں کی جانب سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں کو یکدم بہت زیادہ بڑھا دینا معنیٰ خیز بات ہے۔ان کے بقول یہ اضافہ ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب ملک کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ ایسے وقت میں ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اچانک اتنا زیادہ اضافہ کرنے پر سوال تو ہوں گے۔
ماہرِ معیشت پروفیسر ڈاکٹر قیس اسلم سمجھتے ہیں کہ ملک کی معیشت اِس وقت اِس بڑے اضافہ کو برداشت نہیں کر سکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے تو مزدوروں کی اجرتوں میں اضافہ کیا جائے اور اُس پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانا چاہیے۔ڈاکٹر قیس اسلم کہتے ہیں کہ ملک میں جاری مہنگائی میں اگرچہ رکنِ اسمبلی کی تنخواہ 76 ہزار روپے مناسب نہیں۔ لیکن اسے ڈیڑھ یا دو لاکھ روپے تک کیا جا سکتا تھا۔ اس تنخواہ میں اچانک اتنا بڑا اضافہ درست نہیں ہے۔
ماہرِ معیشت ڈاکٹر قیس اسلم کہتے ہیں کہ جب ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں ایک دم اتنا بڑا اضافہ کیا گیا ہے تو کسی دوسری مد سے یا کسی دوسرے شعبے سے پیسے نکال کر یہ ادائیگیاں کی جائیں گی۔ان کے بقول تعلیم، صحت، پانی، بنیادی سہولتوں یا کسی دوسرے شعبے کے بجٹ میں کٹوتی کرکے ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں کے لیے پیسے دیے جائیں گے کیوں کہ جو سالانہ بجٹ پاس کیا گیا اس میں ان تنخواہوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی کوئی پیسے رکھے گئے ہیں۔
ڈاکٹر قیس اسلم کہتے ہیں کہ تنخواہوں میں اضافہ کا اثر براہِ راست عوام پر پڑے گا۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایک طرف دعویٰ کر رہی ہے کہ ملک میں مہنگائی کم اور افراطِ زر کی شرح گھٹ رہی ہے تو دوسری جانب تنخواہوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ان کے بقول اگر واقعی مہنگائی کم ہو رہی ہے تو اُس کا اثر ارکانِ اسمبلی پر بھی ہونا چاہیے۔
احمد بلال کی رائے میں بھی ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا عوام پر یقیناً بوجھ پڑے گا۔ جو تنخواہیں بڑھی ہیں اس کا اثر قومی خزانے پر پڑے گا اور قومی خزانے کا مطلب ہے کہ عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ہو گا جس کے بعد ٹیکسوں کی شرح میں مزید اضافہ کرنا پڑے گا۔
پلڈاٹ کے صدر احمد بلال کی رائے میں تنخواہوں میں بڑے اضافے کی وجہ شاید ارکانِ اسمبلی یہ سمجھتے ہوں کہ اگر وہ بار بار اپنی تنخواہوں میں اضافہ کریں گے تو اُنہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا حل یہ نکالا ہے کہ ایک دم ہی تنخواہوں میں زیادہ اضافہ کر لیا جائے اور بار بار کی تنقید سے بچا جائے۔
تاہم یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا تنخواہوں میں اضافے سے اراکین اسمبلی کی کارکردگی بھی بہتر ہو گی؟
احمد بلال بتاتے ہیں کہ اُن کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا ارکان کی کارکردگی سے زیادہ تعلق نہیں ہوتا۔اُن کے بقول عمومی طور پر ارکانِ اسمبلی کی اکثریت ایسے طبقے سے تعلق رکھتی ہے جن کے طرزِ زندگی میں تنخواہوں کا بڑھنا یہ نہ بڑھنا بہت زیادہ معنی نہیں رکھتا۔ان کا کہنا تھا کہ ارکانِ اسمبلی کو اپنی کارکردگی بہتر بنا کر اِن تنخواہوں میں اضافے کا جواز فراہم کرنا چاہیے۔