صدر ٹرمپ بھی پاکستان پر عائد پابندیاں برقرار کیوں رکھیں گے؟
معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ امریکہ کو پاکستان کا نیوکلئیر اور میزائل پروگرام ایک انکھ بھی نہیں بھاتا لہذا صدر جو بائیڈن نے پاکستانی کمپنیوں پر جو پابندیاں عائد کی ہیں وہ نئے صدر ٹرمپ کے اقتدار میں انے کے بعد بھی برقرار رہیں گی اور امریکہ کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے وابستہ چار پاکستانی کمپنیوں پر پابندیاں امریکہ میں حکومت کی تبدیلی کے بعد بھی برقرار رہیں گی چونکہ یہ ایک ریاستی پالیسی ہے۔ انکا کہنا یے کہ ہمارے ملک کے چند تجارتی اداروں کو یہ الزام لگا کر بلیک لسٹ کر دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے دورمار میزائلوں کی استعداد اور کارکردگی کو جدید تر بنانے کے لئے بین الاقوامی منڈی سے مطلوبہ ٹیکنالوجی کی تلاش میں سرگرم رہتی تھیں۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ صدر بائیڈن پاکستان سے ہمیشہ شاکی رہا ہے۔ 30 سے زیادہ برسوں تک وہ امریکہ کی خارجہ پالیسی پر نگاہ رکھنے والی سینٹ کی کمیٹی کے طاقتور اور تجربہ کار سربراہ رہے ہیں لہازا وہ پاکستان کہ نیوکلیئر پروگرام کی ڈویلپمنٹ کے حوالے سے اچھی طرح اگاہ ہیں۔ سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے امریکہ کے "حلیف” ہونے کے باوجود بائیڈن طالبان کے چند گروہوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی شدید خواہش رہی کہ پاکستان کی سیاسی قیادت کو عسکری قیادت پر "کنٹرول” حاصل کرنے کے قابل بنایا جائے۔ اسی خواہش کے تحت موصوف نے ری پبلکن پارٹی کے ایک سینیٹر کے ساتھ مل کر ایک قانون تیار کرنا شروع کیا جو اس امر کو یقینی بنانا چاہتا تھا کہ امریکی امداد منتخب سیاسی قیادت کے ہاتھوں پاکستان کے دفاعی اداروں تک پہنچے۔ بعدازاں بائیڈن اوبامہ کے نائب صدر بن گے تو یہ فریضہ ڈیموکریٹ پارٹی کے سینیٹر جان کیری کے سپرد ہوگیا۔ بالآخر جو قانون تیار ہوا اسے "کیری لوگربل” پکارا جاتا ہے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دسمبر 2007 میں شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی جو حکومت قائم ہوئی تھی اس کے دوران یہ قانون لاگو ہونے لگا تو ہمارے عسکری اداروں کے دباؤ پر ان دنوں کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی واشنگٹن گئے۔ وہاں بہت ترلے منتوں کے بعد وہ ایسی ترامیم کروانے کے قابل ہوئے جو عسکری اداروں کی تشویش دور تو نہ کرسکیں۔ مگر انہیں کم کرنے میں مددگار ضرورت ثابت ہوئیں۔ لیخن اس بل کی بدولت پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف عسکری قیادت کے دل میں بال آ گیا۔ اس کا انجام ہمیں یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ کے عہدے سے چیف جسٹس کھوسہ کے ہاتھوں فراغت کی صورت دیکھنے کو ملا۔
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن کا ذکر کرتے ہوئے آپ کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ بطور نائب صدر امریکہ وہ اپنے صدر اوبامہ کو مجبور کرتے رہے کہ افغانستان میں کارروائیوں پر توانائی ضائع کرنے کے بجائے پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر ڈرون حملے کئے جائیں۔ بائیڈن کی دانست میں افغانستان میں دہشت گردی کی جڑیں پاکستان کے قبائلی علاقے تھے۔ ماضی کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں نے جو وحشت پھیلائی جوبائیڈن کی سوچ اس کی کلیدی ذمہ دار تھی۔ اس سوچ کی بدولت بائیڈن عمران حکومت سے فاصلے پر رہا کیونکہ عمران خان ڈرون حملوں کے شدید مخالف رہے تھے۔
لیکن عمران حکومت سے دوری کے باوجود بائیڈن نے شہباز حکومت کو بھی اپنا حلیف کبھی تصور نہیں کیا۔ بائیڈن انتظامیہ پر "ریجیم چینج” کا الزام تحریک انصاف کے حامی تواتر سے لگاتے رہے ہیں۔ لیکن عمران حکومت کی جگہ سنبھالنے والی شہباز حکومت کو بھی بائیڈن انتظامیہ نے جپھیاں نہیں ڈالیں۔ اسے بھی فاصلے پر رکھا گیا اور اب اقتدار چھوڑنے سے چند ہی ہفتے قبل بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو جدید ترین بنانے میں معاونت فراہم کرنے والے پاکستسنی تجارتی اداروں پر پابندیاں لگادی ہیں۔
ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ 20 جنوری 2025ء کو ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس پہنچ جانے کے بعد کیا یہ پابندیاں واپس لے لی جائیں گی؟ نصرت جاوید کہتے ہیں کہ میرا جواب نفی میں ہے۔ می یہ کہنے کو مجبور ہوں کہ اگر رچرڈ گرنیل کی خواہش کے مطابق عمران خان کو رہا کرنے کے بعد جلد از جلد کروائے انتخابات کی بدولت بانی تحریک انصاف کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر تاریخی اکثریت کے ساتھ واپس بھی لے آیا جائے تب بھی پاکستان کے نیوکلئر میزائل پروگرام پر امریکہ کی جانب سے لگائی گئی پابندیاں واپس نہیں ہوں گی۔ وجہنیہ ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکہ کی کسی بھی جماعت کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔
نصرت جاوید کے مطابق اقتدار میں باریاں لینے والی دونوں امریکی جماعتیں شدت سے یہ سوچتی ہیں کہ پاکستان نے اپنے ایٹمی پروگرام ذریعے دیگر اسلامی ممالک کو اُکسایا کہ وہ بھی اپنے تحفظ کے لئے اس مہلک ترین ہتھیار کو تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کریں۔ اس ضمن میں ایران کا خصوصاََ ذکر ہوتا ہے۔ لیبیا کے کرنل قذافی پر الزام تھا کہ اس نے اپنے لئے پاکستان سے ایٹم بم بنانے کی صلاحیت "خریدی” ہے۔ قذافی نے خود پر لگے الزام کو تسلیم کرلیا اور مبینہ طور پر "پاکستان سے ملا” سامان بھی امریکہ کے حوالے کر دیا۔ اس کے باوجود اسے معافی کا مستحق نہیں گردانا گیا۔ مختصر ترین الفاظ میں آپ کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ وہ اسے کمزور سے کمزور تر ہوتا دیکھنا چاہتا ہے اور اگلا امریکی صدر ٹرمپ بھی اس تناظر میں پاکستان کا ہرگز "دوست” نہیں ہے۔