پنجاب میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے اختلافات ختم کیوں نہیں ہوں گے؟

نون لیگی حکومتی ذرائع کی جانب سے ان دعوؤں کے باوجود کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے مابین پاور شیئرنگ پر اختلافات ختم ہو گئے ہیں، پیپلز پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں مستقبل قریب میں بھی اپنے مطالبات پورے ہوتے نظر نہیں آتے کیونکہ وزیراعلی پنجاب مریم نواز وقتی دباؤ کے پیش نظر معاہدے پر عمل درآمد کا وعدہ تو کر لیتی ہیں لیکن اس پر عمل درآمد پھر بھی نہیں کرتیں۔ لاہور میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی اعلی قیادت کے مابین ہونے والی حالیہ ملاقات کے بعد بھی چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زمان نے سینیئر صحافی انصار عباسی کو بتایا ہے کہ پنجاب میں بیوروکریٹس کی تقرری کے حوالے سے کسی قسم کا سیاسی دباؤ نہیں لیا جائے گا۔

یاد رہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی اعلی قیادت کے مابین گزشتہ دنوں ہونے والی ملاقاتوں کے بعد میڈیا کو ایک مرتبہ پھر حکومت کی جانب سے بتایا جا رہا ہے کہ پنجاب کی بیوروکریسی میں سیاسی تقرریوں پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان دیرینہ اختلاف دور ہو گیا ہے اور اب وزیر اعلیٰ مریم نواز کے میرٹ کی بنیاد پر بیوروکریٹس کے انتخاب کا سخت موقف دونوں جماعتوں کے درمیان اضطراب کا باعث نہیں رہا۔  سینیئر صحافی انصار عباسی کے مطابق سابقہ کشیدگی کے باوجود، لاہور میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنماوں کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس حوالے سے تصفیہ ہو گیا ہے۔

پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس مثبت ماحول میں ہوا اور خالصتاً میرٹ پر بیوروکریٹس کی تعیناتی کی وزیراعلیٰ پنجاب کی پالیسی پر مفاہمت ہو گئی ہے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ بیوروکریسی میں تقرریاں نون لیگ یا پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی کیلئے مسئلہ نہیں رہیں۔

تاہم پیپلز پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر پنجاب حکومت کے نمائندوں نے وعدہ کیا ہے کہ پاور شیئرنگ فارمولے کے تحت پیپلز پارٹی کے ایم این اے اور ایم پی اے حضرات کے اضلاع میں ان کی مشاورت سے سول بیوروکریسی اور پولیس افسران کی تقرریاں کی جائیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بھی پیپلز پارٹی حکومت پر دباؤ ڈالتی ہے تو وزیراعظم شہباز شریف بلاول بھٹو سے ملاقات کرتے ہیں جس کے بعد دونوں جماعتوں کی قیادت مل بیٹھتی ہے اور پیپلز پارٹی کو وعدے اور تسلیاں دے کر وقتی طور پر رام کر لیا جاتا ہے۔ لیکن بعد میں کسی بھی وعدے پر عمل درآمدنہیں ہوتا۔

یاد رہےکہ عہدہ سنبھالتے ہی مریم نواز نے اعلان کیا تھا کہ سول بیوروکریسی (بشمول انتظامی اور پولیس) میں سختی سے میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں ہوں گی اور نون لیگ یا پیپلز پارٹی سمیت کسی کا سیاسی دباؤقبول نہیں کیا جائے گا۔  تاہم ہوا کچھ یوں کہ حکومت پنجاب نے تمام اضلاع میں ایسے لوگوں کو اہم عہدوں پر فائز کیا جن کے سفارشی پارٹی کے ایم پی اے اور ایم این اے حضرات تھے۔ چنانچہ پیپلز پارٹی کے منتخب اراکین اسمبلی ناراض ہو گئے اور اپنی پارٹی قیادت کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا۔ 2024 کے الیکشن کے بعد اتحادی حکومت بناتے وقت یہ طے ہوا تھا کہ پیپلز پارٹی پنجاب کے منتخب اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں انتظامی عہدوں اور پولیس محکمے میں تقرریاں ان کی مرضی سے کی جائیں گی۔ لیکن وزیراعلیٰ پنجاب اس فارمولے پر عمل در آمد کے لیے تیار نہیں تھیں، انکا موقف تھا کہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سول سروس کی تقرریوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔

لیکن اب نون لیگی حکومتی ذرائع یہ دعوی کر رہے ہیں کہ وسیع تر حکومتی مفاد میں پیپلز پارٹی سے ہونے والے پاور شیئرنگ فارمولے پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل درآمد کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ صوبائی حکومت نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اگرچہ انہیں سیاسی اثر رسوخ پر تقرریوں میں شیئر نہیں دیا گیا لیکن ان تقرریوں کیلئے افسر کا انتخاب منصفانہ انداز سے کیا جائے گا اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ اہل افسر کو عہدہ دیا جائے۔ دوسری جانب چیف سیکرٹری زاہد زمان کا دعوی ہے کہ پنجاب میں بیوروکریٹک تقرریاں اب سو فیصد غیر سیاسی ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیوروکریسی میں تبادلوں اور تقرریوں کےحوالے سے کسی قسم کا سیاسی دباؤ قبول نہیں کیا جاتا چاہے یہ دباؤ نون لیگ کی قیادت کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب خود بیوروکریٹس کے انٹرویو لیتی ہیں اور اہم عہدوں کیلئے افسر منتخب کرتی ہیں، چاہے وہ عہدہ فیلڈ ایڈمنسٹریشن کا ہو یا صوبائی سیکریٹریٹ کا۔

چیف سیکرٹری پنجاب کا کہنا تھا کہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ ہر عہدے کیلئے تین موزوں امیدواروں کا ایک پینل پیش کرتا ہے، اور مریم نواز افسر کی ماضی کی کارکردگی اور انٹرویو کی بنیاد پر کسی ایک کو منتخب کرتی ہیں۔ چیف سکریٹری نے مزید انکشاف کیا کہ پوسٹنگ کیلئے سیاسی رابطوں کو استعمال کرنے کی کوشش کرنے والے افسران کی فائل کو سرخ سیاہی سے نشان زدہ کر دیا جاتا ہے اور انہیں متعلقہ عہدے پر نہیں رکھا جاتا۔

Back to top button