تحریک انصاف کی حکومت سے مذاکرات کی خواہش آگے کیوں نہیں بڑھے گی؟
یوتھیے رہنماؤں کی جانب سے اچانک حکومت سے مذاکرات کا ڈھنڈورا پیٹنے کے بعد اب عمرانڈو تجزیہ کار یہ دعوے کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر ہی پی ٹی آئی سے مذاکرات بارے معاملات آگے بڑھا رہی ہے تاہم ذرائع کا دعوی ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان کو دوبارہ گود لینا تو کجا حکومت یا اسٹیبلشمنٹ بانی پی ٹی آئی عمران خان یا تحریک انصاف کی لیڈرشپ پر اعتماد کرنے کو ہی تیار نہیں ہیں اور وہ اعتماد سازی کیلئے پی ٹی آئی رہنماؤں سے گارنٹی طلب کر رہے ہیں تاہم شُومِیٔ قِسْمَت دیکھئے کہ مقبولیت کے دعویدار عمران خان کی کوئی بھی شخص گارنٹی دینے کو تیار نہیں ایسے میں حکومت مذاکرات بارے لیت و لعل سے کام لیتی دکھائی دے رہی ہے۔
مبصرین کے مطابق وُہ دِن گئے جب خلیل خان فاختہ اُڑایا کَرتے تھے۔ احتجاج، دھرنوں کی دھمکیاں، جلائو گھیراؤ ، وفاقی دارالحکومت پر یلغار اور آخر میں سول نافرمانی کی دھمکی، عمران خان کے سارے کارڈز نا کام ہی نہیں بلکہ ختم ہو گئے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو کچھ دن پہلے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ آگے کیا حالات بننے ہیں اس لیے تو عمران خان نے از خود مذاکراتی کمیٹی بنا دی تھی لیکن اس سے قبل وہ سول نافرمانی کی دھمکی کی غلطی کر چکے تھے۔ تاہم سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کیخلاف چارج شیٹ سامنے آنے کے بعد آنے والے حالات کی سنگینی محسوس کرتے ہوئے اب پی ٹی آئی قائدین کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ’’ ہم تو انسان ہوں یا فرشتے سب سے مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ ‘‘ تجزیہ کاروں کے مطابق کیا یہ
وہی لوگ نہیں ہیں جو بانی عمران خان کی ہدایت پر کہا کرتے تھے کہ مذاکرات ہوں گے تو صرف اسٹیبلشمنٹ سے ہوں گے۔ موجودہ حکومت سے مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ یہ فارم 47والی ناجائز حکومت ہے ہم اس حکومت کو مانتے ہی نہیں تو اگر ان سے مذاکرات کریں تو اس کا مطلب اس حکومت کو تسلیم کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ یہ بے اختیار حکومت ہے اس لیے اس کے ساتھ مذاکرات کا فائدہ کیا ہے؟۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مذاکرات صرف ان کے ساتھ کریں گے جومکمل طور پر بااختیار ہیں یعنی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ حالانکہ وہاں سےمتعدد بار پی ٹی آئی قیادت کو وضاحت کے ساتھ کہا جا چکا تھا کہ وہ کسی سے مذاکرات کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں نہ اس کی ضرورت ہے۔ تاہم اب پی ٹی آئی رہنما منتیں کرتے نظر آ رہے ہیں کہ اب 9 مئی کی دھول بیٹھ جانی چاہیے اور حکومت کو ہی ہمیں سیاسی مذاکرات کے ذریعے راستہ دینا چاہیے۔
تاہم مبصرین کےمطابق 9 مئی کے واقعات کو دھول کہنے والے یوتھیےرہنما شائد بھول گئے ہیں کہ 9؍ مئی کو کیا ہوا تھا۔ وہ واقعات دھول نہیں بڑے بڑے پتھر ہیں جو لینڈ سلائیڈنگ کی طرح ان واقعات کے منصوبہ سازوں ، سہولت کاروں اور ملوث افراد پر گرنے والے ہیں۔ ذرائع کے مطابق آئی ایس پی آر کی جنرل فیض حمید بارے سامنےآنے والی پریس ریلیز سے بعض یوتھیے رہنماؤں کی ایسی دوڑیں لگیں کہ وہ شرائط کے ساتھ ساتھ بانی عمران خان کو بھی بھول گئے اور اسی شہباز شریف کی ناجائز حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے از خود مذاکرات کے لئے رابطے اور واسطے ڈھونڈنے لگے۔ تاہم اس حوالے سے ذرائع کا دعوی ہے کہ فیض حمید کے معاملے میں 9؍ مئی اور دیگرمعاملات پر کافی پیش رفت ہو چکی ہے جبکہ مزید تفتیش جاری ہے۔
عمران کے زندہ رہنے کیلئے بشریٰ بی بی کو طلاق دینا کیوں ضروری ہو گیا؟
تجزیہ کاروں کے مطابق اب پی ٹی آئی کے بعض رہنما یک کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کا فیض حمید سے جڑے معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق تفتیش کاروں کو بانی پی ٹی آئی عمران خان کے علاوہ اور بہت سے لوگوں کے بارے میں کافی ٹھوس معلومات، ثبوت اور شواہد مل چکے ہیں جو جلد سامنے آ جائیں گے۔ فوجی اداروں کا طریقہ کاریہ ہے کہ پہلے وہ ناقابل تردید ثبوت حاصل کرتے ہیں تب کارروائی کرتے ہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس تناظر میں بانی پی ٹی آئی اور دیگر ملوث افراد کا کیس ملٹری کورٹ میں چلایا جائے گا یا سول اعلیٰ عدلیہ میں تو اس بارے میں ذرائع نے بتایا کہ اس بارے میں جو بھی فیصلہ ہو گا وہ قانون کو مدنظر رکھ کر کیا جائے گا اس لیے قیاس آرائیاں کرنے اور افواہیں پھیلانے سے گریز کیا جائے۔ ایک بات البتہ پتھر پر لکیر ہے کہ کچھ بھی ہو 9؍ مئی کے واقعات کے منصوبہ ساز، سہولت کار اور ملوث عناصر کسی بھی صورت سزائوں سے بچ نہیں سکیں گے۔
جہاں تک حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا تعلق ہے تو مذاکرات کرنا اچھی بات ہے لیکن یہ مذاکرات مختلف نوعیت کے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی بانی کی رہائی، مینڈیٹ کی حوا لگی اور ان کے تمام لوگوں کےمقدمات ختم کرنے جیسی شرائط سے دستبردار ہوتی ہے تو اس کے لئے مذاکرات کی کیا ضرورت ہے وہ ان شرائط سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے سیاسی طریقہ کار پر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپناکردار ادا کرے اور اگر وہ ان ہی شرائط کو ذہن میں رکھتے ہوئے مذاکرات کے لئے بیٹھتی ہے تو ان میں ایک بھی شرط پوری کرنا حکومت کے لئے ناممکن ہے۔ اس صورت حال میں سمجھ نہیں آتی کہ مذاکرات کا کیا فائدہ پی ٹی آئی کومل سکتا ہے۔ مبصرین کے مطابق ان سب باتوں سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پی ٹی آئخ کے حکومت سے مذاکرات کاایجنڈا کیا ہو گا۔ ایجنڈا سامنے آنے سے پتہ چل جائے گا کہ مذاکرات شروع ہوتے بھی ہیں یا پی ٹی آئی کے مذاکرات کی خواہشات کےپھول بن کھلے مرجھا جاتے ہیں۔۔
مبصرین کے بقول بعض یوتھیے رہنما کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ جس طرح میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو شہید کے معاملات ،پرویز مشرف کےساتھ طے ہو گئے تھے اسی طرح بانی پی ٹی آئی کے بھی موجودہ عسکری قیادت سے معاملات طے ہو جائیں گے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور عمران خان میں فرق یہ ہے نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف ضرور کیا تھا تاہم انھوں نے 9مئی جیسے واقعات نہیں کیے تھے نہ ہی ان کے خلاف کرپشن کے ثبوتوں کےساتھ کیسز تھے۔ اس لیے نواز شریف یا بی بی شہید کے معاملات کو کسی بھی طرح عمران خان کی نظیر نہیں کہا جا سکتا۔ اس لئے یوتھیوں کو عمران خان کی جان خلاصی کے خواب دیکھنا چھوڑ دینے چاہیں ۔