کیا عمران خان چوروں کی حکومت سے NRO حاصل کر پائیں گے؟
شکوک و شبہات کے سائے میں حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات کا عمل شروع ہو چکا ہے ۔ چوروں کے ساتھ بات نہیں کروں گا“ کا نعرہ لگانے والے انقلابی عمران خان نے اپنی مذاکراتی ٹیم کو نئی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کے لیے ٹائم فریم مقرر کیا جائے۔ در اصل بانی پی ٹی آئی جلد از جلد جیل سے رہائی کے خواہش مند ہیں۔ تاکہ آنے والے دنوں کی خوفناک صورتحال سے خود کو بچاسکیں۔
روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق جیل میں لگنے والی عدالت کے موقع پر میڈیا کے جو لوگ عمران خان سے ملاقات کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر نے بتایا ہے کہ عمران خان کی باڈی لینگویج اب پہلے سے بہت مختلف ہو چکی ہے۔ پہلے والا تکبر اور اکڑ اب دکھائی نہیں دیتی ۔ عمران خان سے وقتاً فوقتاً ملاقات کرنے والے پی ٹی آئی رہنماؤں سے رابطے میں رہنے والے ایک اہم ذرائع نےبتایا کہ عمران خان پہلے ہی اس بات سے خوفزدہ تھے کہ کہیں ان کو فوجی تحویل میں نہ دے دیا جائے ۔ فیض حمید کے خلاف فرد جرم عائد ہونے کے بعد سے ان کے اس خوف میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کیونکہ انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ اگر جنرل فیض حمید انجام سے نہیں بچ سکا تو ان کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی جبکہ فوجی تحویل میں دیئے جانے کے بعد یہ موجیں ختم ہو جا ئیں گی، جو انہیں اڈیالہ جیل میں میسر ہیں۔ ساتھ ہی 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ کا الزام ثابت ہو گیا تو طویل سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جس میں اپیلوں میں اتنی آسانی سے ریلیف ملنا مشکل ہے۔
مبصرین کے مطابق عمران خان کو ادراک ہے کہ دوران سماعت فیض حمید کی جانب سے ایسے انکشافات سامنے آسکتے ہیں۔ جو انہیں فوجی تحویل میں دیئے جانے کا ٹھوس جواز فراہم کر دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ”چوروں کی حکومت“ سے وہ نہ صرف این آراد لینے کے لیے بے تاب ہیں۔ بلکہ چاہتے ہیں کہ فیض حمید کا ٹرائل مکمل ہونے سے پہلے حکومت کی جانب سے انھیں ایسی ڈیل مل جائے، جو ان کی رہائی کا راستہ ہموار کر دے۔ اسی لئےحکومت کے ساتھ این آر او کے تحت ہونے والے مذاکرات میں پہلا بنیادی مطالبہ عمران خان نے اپنی رہائی کا ہی رکھوایا ہے۔ تاہم ساتھ میں عمران خان نے دیگر پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان پر انگلیاں اٹھنی شروع ہوگئی تھیں کہ وہ صرف اپنی رہائی کے لیے بے تاب ہیں۔
تجزیہ۔کاروں کے مطابق آج کے حکمرانوں اور ماضی کی اپوزیشن کے لیے این آراو نہیں دوں گا“ کا نعرہ لگانے والے عمران خان آج خود این آراد کے لیے بے چین ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان پر این آراد لینے کا الزام نہ آئے تا کہ سیاسی ساکھ متاثر نہ ہو اور ماضی کی بڑھکیں گلے کا طوق نہ بن جائیں۔ لہذا وہ این آراد لینے کے ساتھ ایسی فیس سیونگ بھی چاہتے ہیں کہ باہر آ کر بڑھک لگاسکیں کہ میں نے این آراد نہیں لیا۔ بلکہ حکومت نے مجبور ہو کر رہا کیا۔ مبصرین کے مطابق عدالت میں پیشی کے موقع پر عمران خان میڈیا کے ساتھ بات چیت میں اب بھی جو بڑھکیں مار رہے ہیں، وہ ڈھکوسلا ہیں۔ اصل حقائق یہ ہیں کہ جیل کی زندگی ان کے لیے اب نا قابل برداشت ہو گئی ہے۔ خاص طور پر فیض حمید کا نیٹ ورک پکڑے جانے کے بعد سے عمران خان کے جیل کے دن مشکل اور راتیں کٹھن ہو چکی ہیں۔ ایسے میں فیض حمید پر عائد فرد جرم نے ان کی رہی سہی اکڑ بھی ختم کردی ہے۔ مبصرین کے مطابق جیل میں ملاقات کرنے والے پارٹی رہنماؤں نے بھی عمران خان کو باور کرایا ہے کہ فیض حمید کے ٹرائل کا فیصلہ ہونے سے پہلے اگر ان کی رہائی ممکن نہیں ہوتی تو پھر ان کے لیے مزید کٹھن دن آنے والے ہیں۔ ان مشوروں کی روشنی میں ہی بانی پی ٹی آئی نے فارم سینتالیس“ والی حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اور مذاکراتی عمل شروع کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔ لیکن انہیں خوف ہے کہ حکومت مذاکرات کے عمل کو لڑھکا کر طویل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اور بات چیت کے عمل کو فیض حمید کے ٹرائل کے مکمل ہونے تک لے جانا چاہتی ہے۔ اس حکومتی ارادے کو بھانپتے ہوئے عمران خان نے ملاقات کرنے والے پارٹی رہنماؤں کو خصوصی تاکید کی کہ وہ ہر صورت حکومت سے مذاکرات سے متعلق ٹائم فریم لیں۔ ذرائع کے مطابق عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جانے سے متعلق امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کی تشویش پر عمران خان کی کچھ ڈھارس بندھی ہے۔ لیکن ان کا یہ خوف تا حال برقرار ہے کہ کہیں انہیں فوجی تحویل میں نہ دے دیا جائے۔
اگر آج جناح زندہ ہوتے تو بھی عمران خان جیل میں کیوں بند ہوتا ؟
ادھر اسلام آباد میں بیٹھے ذرائع کا کہنا ہے کہ 2 جنوری کو جب مذاکراتی عمل کا دوسرا دور شروع ہوگا تو پی ٹی آئی جہاں اپنے مطالبات رکھے گی۔ اس کے تناظر میں حکومت بھی اپنے مطالبات کو ترتیب دے گی۔ یہ ضروری نہیں کہ پی ٹی آئی کے تمام مطالبات تسلیم کر لئے جائیں۔ خاص طور پر عمران خان کی رہائی کے معاملے پر سمجھوتہ آسان دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ان ذرائع کے بقول اگر ایسا مرحلہ آ بھی گیا تو شاید عمران خان کو اڈیالہ جیل سے بنی گالہ والی رہائش گاہ منتقل کر کے اسے سب جیل کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ جیسے وہاں اس سے پہلے بشری بی بی عرف پنکی پیرنی کو رکھا گیا تھا۔ تا ہم اس کے لیے بھی مقتدرہ کا گرین سگنل ضروری ہے۔ تاہم اس این آراد کے لیے عمران خان کو بہت کی یقین دہانیاں کرانی ہوں گی۔ جس میں ملک میں انتشار پھیلانے سے متعلق بیان بازی روکنا، بیرون ملک سے چلائی جانے والی سوشل میڈیا ٹیم کو کنٹرول کرنا اور سیاسی استحکام لانے کے لیے مزید کسی ریلی یا دھرنے کا اعلان نہ کرنا جیسی شرائط سر فہرست ہوں گی ۔ یہ سب کچھ اس وقت ہی ممکن ہو گا جب مذاکرات کے نام پر شروع کی جانے والی ڈیل پایہ تکمیل تک پہنچ جائے۔ جس پر اب تک بے یقینی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔