کیا عمران خان کاامریکہ مخالف کارڈ بک پائے گا؟
اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دے کر
وزیراعظم عمران خان بھی ان سیاستدانوں کی لمبی لسٹ میں شامل ہوگئے ہیں جو ضرورت پڑنے پر سیاست چمکانے کے لیے امریکا مخالف چورن بیچتے ہیں
اور ضرورت پوری ہو جانے پر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان میں صحیح یا غلط ایک تاثر بن گیا ہے کہ ہمارے عوام امریکہ سے نفرت کرتے ہیں اور اشرافیہ امریکہ سے محبت کرتی ہے۔ اسلیے سیاستدانوں کو جب بھی اپنی سیاست خطرے میں نظر آتی ہے تو وہ عوامی جلسوں میں امریکہ کو للکارنے لگ جاتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے راجہ بازار راولپنڈی میں تب کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا ایک دھمکی آمیز خط لہرانے کا واقعہ تو تاریخ کاحصہ بن چکا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام اور اسلامی سربراہی کانفرنس کی وجہ سے واقعی بھٹو کا دشمن ہو چکا تھا۔عمران خان بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جو بھٹو نے کیا تھا اور اس سلسلے میں اپنے دورہ روس کا پس منظر بیان کرتے ہیں حالاں کہ پاک امریکہ تعلقات اس سے پہلے ہی سرد مہری کا شکار تھے۔
یاد رہے کہ جب سے بائیڈن صدر بنے انہوں نے پاکستان کو ’نو لفٹ‘ کا بینر لگا رکھا ہے۔ پاکستان کی جانب سے کئی وفود واشنگٹن جا کر اس ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کی کوشش کر چکے ہیں مگر عمران خان اب واشنگٹن سے کال کا انتظار ختم کر کے اسے ایک سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف کی حکومت بھی کچھ اسی قسم کی تاثر دیتی رہی ہے۔ انہوں نے کھل کر امریکہ کا نام تو نہیں لیا مگر ان کے بیانات سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی حکومت کے خلاف دھرنوں اور پھر نواز شریف کی معزولی میں امریکہ کا ہاتھ تلاش کر رہے ہیں۔ 2014 میں مسلم لیگ کے وزرا یہ کہتے پھرتے رہے کہ ان دھرنوں کی وجہ سے چین کے صدر کا دورہ ملتوی ہو گیا ہے جسے اس وقت سی پیک کے تناظر میں انتہائی اہم قرار دیا جا رہا تھا۔
اگلے عام انتخابات میں جب پی ٹی آئی برسر اقتدار آئی تو سب سے پہلا نشانہ سی پیک بنا۔ اس کے بہت سے منصوبے نہ صرف روک دیے گئے بلکہ عمران خان کے ایک مشیر نے ان منصوبوں پر بھاری بدعنوانی کا الزام بھی لگا دیا جس پر چین نے انتہائی ناراضی کا اظہار کیا۔
اس وقت ن لیگ کے سرکردہ رہنما نجی محفلوں میں یہ مؤقف اختیار کرتے پائے گئے کہ ان کی حکومت سی پیک کی وجہ سے ختم کی گئی ہے اسی لیے نئی حکومت نے آتے ہی سی پیک کو ’رول بیک‘ کر دیا ہے۔ لیکن یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ سی پیک جیسے سٹریٹیجک منصوبے میں ضمانت کار اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنر ل راحیل شریف تھے۔ بعد میں آنے والی قیادت کو شاید مختلف حالات کا سامنا رہا جس کی وجہ سے یہ منصوبہ نہ صرف سست روی کا شکار ہو گیا بلکہ کافی حد تک غیر موثر بھی ہو گیا۔
اب وہی عمران خان اپنی حکومت کے ختم ہونے کے پیچھے امریکی ہاتھ تلاش کرتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے اس خطے میں امریکی پالیسیوں کے خلاف سخت تنقید کی ہے۔ عمران خان کے مشیر احتساب شہزاد اکبر مشرف دور میں ڈرون حملوں کے خلاف کام کرنے والی ایک این جی او چلاتے تھے جس کی مالی مدد کرنے والے برطانوی ادارے سے عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما خان بھی منسلک تھیں۔ شاید یہی تعلق بعد میں عمران خان اور شہزاد اکبر کے رابطوں کا ذریعہ بن گیا تھا۔
اپنی تازہ ترین واردات میں عمران خان نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد داخل ہونے کے بعد یہ الزام عائد کر دیا کہ امریکہ ان کی حکومت گرانا چاہتا ہے اور اپوزیشن استعمال ہو رہی ہے۔ اپنے الزام کے حق میں انہوں نے جو خط بطور ثبوت گنوایا وہ دراصل واشنگٹن میں سابق پاکستانی سفیر اسد مجید خان لکھا ہے جس میں ان کی ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار سے ملاقات کی روداد بیان کی گئی ہے۔ تاہم سابق امریکی سفارت کار رابن رافیل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سارا معاملہ ایک غلط فہمی پر مبنی ہے اور عمران خان یا پاکستان کو امریکہ کی جانب سے کوئی دھمکی جاری نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ’’میرے خیال میں جس بات میں ابہام ہے وہ یہ ہے کہ ایک معمول کی سفارتی ملاقات کے دوران، امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستانی سفیر کو کہا کہ وہ ملاقات کے لیے آئیں تاکہ ان سے پاکستان کی جانب سے امریکہ کے خلاف بیان بازی کے بارے میں شکایت کی جا سکے۔ اور پاکستان کو کہا جاسکے کہ وہ یوکرین کی حمایت کرے اور روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کرے۔ سو یہ بیان بازی کی نوعیت کو بدلنے کے لیے کہا گیا نہ کہ حکومت کو بدلنے کی بات ہوئی۔‘‘
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے مطابق عمران نے خود کہا ہے کہ یہ دو سفارت کاروں کی ملاقات کے نوٹس ہیں جو پاکستانی سفیر کی جانب سے ان تک پہنچے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ، "سفارت کار ایک دوسرے کو بہت سی باتیں کہتے ہیں۔ ان میں یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کے ملک کی حکومت سے ہمارا کام نہیں بن رہا اور بعد میں ہم جو نئی حکومت ہو گی اس کے ساتھ بات کریں گے۔” انہوں نے یاد دلایا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ نے بھی آن دی ریکارڈ یہ بیان دیا ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت کے ساتھ پاکستان کوئی مذاکرات نہیں کر پائے گا۔ بقول ان کے یہ کوئی دھمکی نہیں ہے، یہ ایک معمول کی سفارت کاری کی بات ہے جس کا عمران خان نے بتنگڑ بنا ڈالا۔ سابق پاکستانی سفیر نے مزید کہا کہ اصل سبب یہ ہے کہ وہ پاکستان کی پارلیمنٹ کی اکثریت کھو چکے ہیں۔ "جو ان کی سبکی ہوئی ہے اس پر پردہ ڈالنے کے لیے وہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات داؤ ں پر لگا رہے ہیں۔”
عمران کا غیر آئینی چھکا باؤنڈری پر کیچ ہو سکتا ہے
یاد رہے کہ آج کے امریکہ مخالف عمران خان نے ماضی قریب میں صدر ٹرمپ سے اچھے تعلقات استوار کر لیے تھے حالاں کہ برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے پاکستان کے بارے میں کچھ اچھے بیانات نہیں دیے تھے۔ واشنگٹن کے بعض سفارتی حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ صدر بائیڈن کی جانب سے عمران خان کے ساتھ ناراضی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عمران خان نے امریکی الیکشن سے پہلے ٹرمپ کے جیتنے کی پیش گوئی کی تھی اور کسی حد تک ٹرمپ کی مدد بھی کی تھی۔ یہی وہ خلش ہے جو صدر بائیڈن ابھی تک رکھے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے بھی دورہ روس کے بعد امریکی مخالفت کے کارڈ کو کھل کر کھیلنا شروع کر دیا ہے اور اس کارڈ کی حساسیت نے پاکستانی اشرافیہ کو مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ اپنی ڈوبتی ہوئی سیاسی ناؤ کو بچانے کے لئے عمران خان کا امریکہ مخالف چورن بک پتا ہے یا نہیں؟