کیا عمران خان کو رہائی اور اقتدار دینے سے مسائل حل ہو جائیں گے؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے کہا ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈر، ججز، اور جرنیل، سب کے سب، ایک ٹائم لُوپ میں پھنسے ہوئے ہیں، اپنی طرف سے تو یہ سب ’شرطیہ نیا پرنٹ‘ پیش کرتے رہتے ہیں، مگر دراصل یہ وہی کئی دھائیوں پرانا گھسا اور پِٹا ہوا پرنٹ ہے، پاکستانی عوام ہر صبح جب بیدار ہوتے ہیں تو انہیں ایک اور ’کل‘ کا سامنا ہوتا ہے، ہر روز یہی ہوتا ہے، سال ہا سال سے یہی ہو رہا ہے، یہاں سوئی اڑی ہوئی ہے، نیا دن نہیں نکلتا، ہم دہائیوں سے ایک ہی دن کو دہراتے چلے جا رہے ہیں۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حماد غزنوی کہتے ہیں کہ زیادہ پیچھے نہ جائیے، پچھلے دس سال پر ایک نظر ڈالیے۔ آج سے ٹھیک دس سال پہلے ملک میں ایک دھرنا ڈی چوک میں ہو رہا تھا، عمران خان کی کال پر ہو رہا تھا اور الیکشن ’دھاندلی‘ کے خلاف ہو رہا تھا۔ اور آج کیا ہو رہا ہے؟ مِن و عن وہی ہو رہا ہے، یوں لگتا ہے جیسے ہم ’کل‘ میں اٹھے ہیں، ریڈیو پر وہی دھن بج رہی ہے، پروگرام کا میزبان وہی ٹھنڈی جگتیں کر رہا ہے، وہی دھاندلی، وہی کال، وہی ڈی چوک، اور وہی عمران خان۔ ہم بہت سی جزیات بدل کر اس ٹائم لُوپ کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر دائرہ ٹوٹتا ہی نہیں۔

حماد غزنوی کہتے ہیں ہماری سیاسی تاریخ میں سب ہی الیکشن دھاندلی کا شکار ہوئے، ہماری سب حکومتوں کو "لجیٹی میسی” کا کرائسس درپیش رہا۔ آج کی وفاقی حکومت کے کسی وزیر سے الیکشن 2024 میں فارم 47 کا شکوا کریں تو وہ الیکشن 2018 میں RTS کے بیٹھنے کا تذکرہ لے بیٹھے گا، آج کے وزرا کا کہنا ہے کہ عمران خان ہمارا 2018 کا مینڈیٹ واپس کر دے تو ہم بھی غور فرمائیں گے کہ کیا کرنا ہے۔ ٹائم لُوپ میں پھنسنا اور کسے کہتے ہیں؟

حماد کہتے ہیں کہ پاکستان کے شمال سے لشکر اترنا بھی ہمارے لیے کوئی نیا منظر نہیں ہے، ’نئی بات‘ یہ تھی کہ اس بار خیبر پختون خوا سے آنے والے جتھوں کی قیادت بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کر رہی تھیں، جنہوں نے ہجوم سے اپنا پہلا سیاسی خطاب بھی کیا اور پٹھانوں کو ایک غیرت مند قوم قرار دیتے ہوئے انکے ساتھ اکٹھے جینے اور مرنے کی قسمیں بھی کھائیں۔ یہ اور بات کہ جب رینجرز نے ڈی چوک میں آپریشن شروع کیا تو بشری بی بی حسب عادت ایک مرتبہ پھر بھاگ نکلیں۔ بڑے عدسے سے دیکھیں تو موروثی سیاست بھی ہمارے لیے کوئی انوکھی بات نہیں، عمران خان کو جب تک موروثی سیاست کو گالی دینے کی ضرورت تھی وہ دیتے رہے، اب پہلی بار انہیں اس کی ضرورت پڑی ہے تو وہ اس کے فضائل گنواتے نظر آ رہے ہیں۔

وفاقی کابینہ کی اکثریت نےخیبر پختونخوا میں گورنرراج نافذ کرنے کی حمایت کردی

حماد غزنوی کے بقول بہرحال پی ٹی آئی میں جانشینی کا مسئلہ تو بڑی حد تک حل ہو گیا، بہ ظاہر یہ تو طے پا گیا کہ اگر عمران خان بہ وجوہ سیاسی منظر نامے میں شامل نہیں ہو سکیں گے تو ان کی پیرنی یعنی بشری بی بی انکی جگہ سنبھالیں گی، چاہے پھر جلوس کی قیادت ہو یا مسند اقتدار۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ اب مسئلہ کچھ یوں ہے کہ آئے دن عمران خان احتجاج سے ملکی نظام مفلوج کروا دیتے ہیں، انہیں جیل میں رکھنے سے ملک میں بے چینی ہے، لیکن اگر انہیں رہا کر دیا جائے تو ملک میں بے چینی بڑھنے کا اندیشہ ہے، وہ 2014 سے آج تک اقتدار سے باہر ایک دن بھی نہ خود پر امن رہ پائے نہ ہی ملک رہ سکا ہے، ایسے میں اس مسئلے کا ان کے پاس ایک ہی ’’سنہرا حل‘‘ ہے، وہ یہ کہ انہیں رہا کرنے کے بعد اقتدار ان کے حوالے کردیا جائے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنے سے پاکستان کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے خصوصا جب انہیں پہلے بھی بطور وزیر اعظم آزمایا جا چکا ہے۔

Back to top button