کیا عمران دوبارہ اسٹیبلشمنٹ کا اردلی بننے میں کامیاب ہو پائیں گے ؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ آج کل شہباز شریف کو اردلی وزیراعظم قرار دینے والے سابق وزیر اعظم عمران خان کی اپنی حیثیت بھی ایک اردلی کی ہی تھی اور اسی وجہ سے وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ختم ہونے کے بعد چند ہفتے بھی اپنے عہدے پر برقرار نہ رہ پائے۔ انکا کہنا ہے کہ اپنے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے اب تک عمران خان دوبارہ اسٹیبلشمنٹ کے اردلی کی پوزیشن حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں لیکن انہیں کامیابی نہیں مل رہی۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ عمران خان کا فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اصولی اختلاف ہے تو وہ غلطی پر ہے۔ 2018 کے الیکشن میں فوج کے کاندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آنے والے عمران خان ہرگز یہ نہیں کہتے کہ وہ فوج کے سیاسی کردار کے خلاف ہیں، وہ تو بطور وزیراعظم بھی فوج اور آئی ایس آئی کے سیاسی کردار کی حمایت کیا کرتے تھے۔ ان کا فوجی قیادت کے ساتھ اختلاف صرف کرسی پر ہے۔ جس دن فوج شہباز کو ہٹا کر عمران کو اردلی بننے کی آفر کرے گی، وہ ہنس کر اسے قبول کر لیں گے اور تمام تر اختلافات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ عمران خان پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ دودھ کا جلا چھاج بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔

انصار عباسی کہتے ہیں کہ عمران نے شہباز حکومت کو ایک بار پھر اردلی حکومت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں ملک کیلئے زہر قاتل ہیں۔ سینیئر صحافی کے بقول خان صاحب شہباز حکومت کو اردلی حکومت اس تاثر کی بنا پر کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ہی پاکستان کی اصل حکمران ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی کردار بلاشبہ بہت بڑھ چکا ہے اور اگر عمران ایسا کہتے ہیں تو یہ عمومی رائے کے مطابق ہے، لیکن اگر خان صاحب پورے سچ پر سے پردہ اُٹھائیں تو پھر اُنہیں بھی ماننا پڑے گا کہ اُن کی اپنی حکومت بھی اردلی حکومت ہی تھی۔ عمران نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد بطور وزیراعظم اپنے تمام متنازع فیصلوں کا ذمی دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیا تھا، اور کہا تھا کہ یہ سب فوج کا کیا دھرا تھا۔

انصار عباسی کہتے ہیں کہ خان صاحب اگر کہتے ہیں کہ ایجنسیوں کو سیاست اور سیاسی معاملات کی بجائے دہشتگردی پر توجہ دینی چاہیے تو یہ جائز ہے لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ عمران کے اپنے دور حکومت میں ایجنسیاں ہر سیاسی معاملے میں ملوث ہوتی تھی اور ایسا عمران خان کے اپنے احکام پر ہوتا تھا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اہم ترین مواقع پر ووٹ بھی آئی ایس آئی خان کی مرضی سے ڈلواتی تھی تاکہ عمران حکومت اپنا ایجنڈا آگے بڑھا سکے۔ کیا عمران نے یہ خود تسلیم نہیں کیا تھا کہ اپنے دور حکومت میں وہ اسمبلی کے اجلاسوں میں قانون سازی کے لیے حکومتی ممبران اسمبلی کو پارلیمنٹ میں بلانے تک کے لیے آئی ایس آئی کو کہا کرتے تھے۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ اگر سیاستدان چاہتے ہیں کہ اردلی حکومتوں کا خاتمہ ہو تو پھر اُنہیں اپنے اقتدار کی بجائے پاکستان کے مفاد کے لیے کوشش کرنی ہو گی، جب حکومت ملے تو دن رات ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے ایک کر دیں اور جب کوئی قومی معاملہ ہو تو چاہے حکومت ہو یا اپوزیشن، سب اپنے سیاسی مفادات اور اختلافات سے بالاتر ہو کر صرف پاکستان کی خاطر مل بیٹھیں۔ اگر سیاست دان آپس میں ہر معاملے پر لڑتے ہی رہیں گے تو پھریہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔

پاکستانی فوجی قیادت کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کا بل پیش

انصار عباسی کا کہنا ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کے حوالے سے بلاول بھٹو نے قومی سلامتی کمیٹی کی ایک اور میٹنگ بلانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تحریک انصاف کو اس اہم اجلاس میں شرکت کیلئے ثالث کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بلاول کی اس پیشکش کو حکومت نے فوری مان لیا اور انہیں ذمہ داری سونپ دی کہ وہ قومی سلامتی کمیٹی کے ایک اور اجلاس کے بلائے جانے پر تحریک انصاف سے شرکت کرنے کے حوالے سے بات کریں۔ بلاول بھٹو کی یہ تجویز اہمیت کی حامل ہے کیونکہ دہشتگردی جیسے بڑے مسئلے پر قابو پانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز میں اتفاق رائے کا ہونا بہت ضروری ہے۔ حال ہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا جو اجلاس پارلیمنٹ میں ہوا تھا، اُس میں تحریک انصاف اور چند دوسری اپوزیشن جماعتوں نے شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ تحریک انصاف نے ابتدا میں تو اجلاس میں شامل ہونے کی ہامی بھر لی تھی لیکن بعد میں عمران خان سے مشاورت کی اجازت نہ ملنے پر اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ اس حوالے سے حکومت کا یہ کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے ہمیشہ قومی اہمیت کے ایسے اجلاسوں میں کسی ایک بہانے یا کسی دوسرے بہانے ہمیشہ شرکت سے گریز کیا، بات درست ہے لیکن حکومت کو دہشتگردی کے معاملہ پر قومی اتفاق رائے کے حصول کی خاطر تحریک انصاف کے رہنماوں کو عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملنے کی اجازت دے دینی چاہیے تھی۔ یہ بھی کہا گیا کہ عمران تو اپنی حکومت کے دوران بھی قومی اہمیت کے حامل کسی اجلاس میں اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہ ہوئے۔ اگرچہ تحریک انصاف نے اس اہم اجلاس میں شرکت نہیں کی لیکن اُسکے کچھ رہنما اپنی پارٹی کے اس فیصلہ پر خوش نہیں تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ دہشت گردی جیسے اہم قومی مسئلہ پر کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔

Back to top button