مذاکرات سے نہ حکومت بدلے گی اور نہ ہی عمران رہا ہو پائیں گے؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے مابین ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں نہ تو حکومت تبدیل ہوگی اور نہ ہی عمران خان کے جیل سے باہر آنے کا کوئی امکان موجود ہے۔

اپنی تازہ سیاسی تجزیے میں انصار انصار عباسی کہتے ہیں کہ مذاکرات سے نہ تو شہباز حکومت کو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی بات چیت کا فوکس حکومت کی تبدیلی ہے۔ ان مذاکرات میں شامل یا پس پردہ پیش آنے والے واقعات اور حالات سے آگہی رکھنے والے تحریک انصاف کے رہنما بھی جانتے ہیں کہ بات چیت کا محور حکومت کی تبدیلی نہیں۔ تاہم، اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان ان بیک چینل مذاکرات کے مستقبل کا انحصار عمران خان اور ان کی پارٹی کے بیرون ملک چیپٹرز اور سوشل میڈیا کے رویے پر ہے۔

انصار عباسی کے بقول باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ ان مذاکرات کا مقصد سیاسی استحکام کو یقینی بنانا ہے جس سے ایک طرف موجودہ نظام کے تسلسل کو یقینی بنایا جائے گا تو دوسری جانب اس سے تحریک انصاف کیلئے سیاسی جگہ بھی پیدا ہوگی۔ اس دوران یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ پی ٹی آئی کے چئیرمین بیرسٹر گوہر خان اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی ’’حکومت‘‘ کی نمائندگی کرنے والے تین انتہائی اہم رہنماؤں کی آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات ہوئی ہے۔ عمران خان نے بھی میڈیا سے گفتگو میں بتایا ہے کہ بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈاپور نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی ہے۔

 

اطلاعات کے مطابق عمران خان اس پیشرفت سے کافی خوش ہیں اور ان کی جلد سے رہائی کی امیدیں روشن ہو گئی ہیں۔ تاہم، ان بیک چینل باتوں کا تسلسل بنیادی طور پر اس بات پر منحصر ہے کہ عمران خان ان کے سوشل میڈیا اور بیرون ملک پی ٹی آئی کے حامی آنے والے دنوں میں کیا کرتے ہیں۔ بقول انصار عباسی یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بیرسٹر گوہر نے عمران خان کو علی امین گنڈا پور اور آرمی چیف سے ملاقات کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہوگا کہ انہیں اور ان کی جماعت کو اداروں کے ساتھ تصادم اور کشیدگی کی سیاست ختم کرنے کا عمل ثابت کرنا پڑے گا۔

پی ٹی آئی کا آرمی چیف سے ڈیل کا دعوی بھی سزا کے بعد ہوا ہو گیا

 

پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما، جنہوں نے گزشتہ دو برسوں میں تشدد، کشیدگی اور اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کی اپنی سیاست کی وجہ سے ہر قسم کے مسائل کا سامنا کیا ہے، وہ اب ایف آئی آر اور عدالتی مقدمات سمیت مشکلات سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔  تحریک انصاف کے اندر بھی عمران خان اور فوج پر تنقید کرنے کی سوشل میڈیا کی پالیسی کے حوالے سے تحفظات ہیں لیکن ایسی آوازیں پہلے کبھی نہیں سنی گئیں۔ اب عمران خان کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ گزشتہ ڈھائی سال کی کشیدگی اور تصادم کی پالیسی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں یا مفاہمت کا راستہ چاہتے ہیں۔

 

انصار عباسی کے بقول اب تمام نظریں عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ اور پارٹی کے سوشل میڈیا پر مرکوز ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اب وہ عمران سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے مستقبل کی خاطر فوج کے ادارے سے محاذ آرائی سے گریز کریں ۔

Back to top button