کیا 27 ویں ترمیم کے ذریعے واقعی ملٹری کورٹ بنائی جائیں گی؟
دو تہائی اکثریت سے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد ملکی سیاسی و قانونی حلقوں میں 27ویں آئینی ترمیم کی باز گشت زوروں پر ہے۔ حکقومتی حلقوں کی جانب سے جہاں 26ویں آئینی ترمیم میں رہ جانے والے نکات کی 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے منظوری کا عندیہ دیا جا رہا ہے وہیں دوسری جانب سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمٰن اور تحریک انصاف کی جانب سے 27ویں آئینی ترمیم کی سخت مخالفت اور احتجاج کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق حکومت پہلے پہل سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 23 کرنے کے حوالے سے قانون سازی کرنے کیلئے کوشاں ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ رواں ہفتے کے آخر تک حکومت اس حوالے سے قانون سازی کرنے میں کامیاب ہو جائے گی ان کا مزید کہنا ہے کہ حکومت کسی بھی سیاسی انتشار سے بچنے کیلئے اس وقت تک 27ویں آئینی ترمیم کو منظوری کیلئے پارلیمنٹ میں پیش نہیں کرے گی جب تک اسے آئینی ترمیم کی منظوری کا 100فیصد یقین نہ ہو۔ حکومت اس حوالے سے اپنا پیپر ورک مکمل کر رہی ہے جیسے ہی حکومت نمبر گیم پوری کر لے گی اسی وقت 27ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کر دی جائے گی۔
واضح رہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کی خبر سب سے پہلے سینئر صحافی انصار عباسی نے دی تھی، آئینی ترمیم کے لیے حکومتی تیاریوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں انصار عباسی نے بتایا کہ آج وزیراعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاہور میں ملاقات کی ہے۔ اس میں 27ویں آئینی ترمیم پر مشاورت ہوئی ہے، لیکن ذرائع کے مطابق اس ترمیم کے ذریعے ملٹری کورٹس یا وہ تجاویز جن کو 26ویں ترمیم کے وقت مسترد کیا گیا تھا ان کو شامل نہیں کیا جائے گا۔
انصار عباسی کے مطابق 27ویں ترمیم بھی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے بعد سامنے آئے گی۔ اس ترمیم میں ایم کیو ایم کے بلدیاتی نظام کی بہتری کے مطالبے کو پورا کیا جائے گا۔ بلوچستان کے صوبائی حلقے چونکہ بہت بڑے ہیں تو ان حلقوں کو چھوٹا کر کے صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے گا، اس کے علاوہ ایسی ہی کچھ دیگر چیزیں 27ویں ترمیم میں تجویز کی جائیں گی۔
کیا یوتھیے ججز قابو کرنے کا حکومتی منصوبہ کامیاب ہو پائے گا؟
دوسری جانب پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ حسن رضا پاشا کے مطابق اس وقت تک تو صرف میڈیا پر قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ 27 ویں ترامیم آرہی ہے لیکن کوئی اس کے خد و خال بیان نہیں کیے جا رہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ 27ویں ترمیم کے ذریعے 26ویں ترمیم میں جو چند خامیاں رہ گئی ہیں ان کو دور کیا جائے گا تو دوسری جانب کوئی کہہ رہا ہے کہ 27 ویں ترمیم کے ذریعے ملٹری کورٹس کا قیام ہونے والا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ واضح کرے کہ کیا کوئی آئینی ترمیم آنے والی ہے اور اگر آنے والی ہے تو اس کے کیا نکات ہوں گے۔
حسن رضا پاشا نے کہا کہ ایک آئینی ترمیم کے بعد دوبارہ فوری طور پر دوسری آئینی ترمیم کرنا کوئی زیادہ غلط بات نہیں ہے۔ 1973 میں پاکستان کا آئین بنا اور اگلے ہی سال اس میں ترمیم کی گئی۔ اگر یہ ترامیم کسی قانونی سقم کو دور کرنے کے لیے کی جا رہی ہے تو اس میں کوئی قدغن نہیں ہے۔
بعض دیگر قانونی ماہرین کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم کے 2 حصے تھے، ایک حصے میں پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ کا فیصلوں کے ذریعے معاملات میں مداخلت کو روکا گیا ہے اور دوسرا چیف جسٹس کی تعیناتی سے متعلق تھا، جبکہ اس ترمیم کے ذریعے جو آئینی بینچ تشکیل دیا گیا ہے وہ آئینی عدالتوں کے قیام سے مختلف ہے۔ ان سب میں سب سے ضروری آئینی بینچ کی تشکیل اور اس کے سننے والے کیسز کا معاملہ ہے۔ اب جب تک 27ویں ترمیم نہیں کی جاتی اس وقت تک یہ آئینی عدالتوں یا آئینی بینچ کا معاملہ حل نہیں ہوگا۔