کیا سانحہ 9 مئی کے منصوبہ ساز کپتان کو جیل سے رہائی ملے گی ؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اتحادی حکومت کی 9 ماہ کی متاثر کن کارکردگی نے نہ صرف معیشت کو سنبھال لیا ہے بلکہ 9 مئی کے فتنہ سازوں کی جانب سے پیدا کردہ سیاسی عدم استحکام پر بھی کافی حد تک قابو پا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب جب کہ عوام نے عمران خان کی احتجاجی کالز پر باہر نکلنا بند کر دیا ہے تو انہوں نے سول نام فرمانی کی تحریک چلانے کی دھمکیاں دینی شروع کر دی ہیں۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ جیل سے باہر آنا چاہتے ہیں اور اپنی فتنہ انگیزیوں کے ذریعے حکومت پر این آر او لینے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔ تاہم کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ سانحہ 9 مئی 2023 کے منصوبہ سازوں میں سے ایک ہیں۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان واقعی کسی ’سیاسی عدمِ استحکام‘ کا شکار ہے یا یہ یہ سب محض بیانیہ سازوں کی معجزہ کاری ہے؟ انکا کہنا ہے کہ ’’عدمِ استحکام‘‘ کے مَرض کی تشخیص کیلئے ریاست کے تین بنیادی ستونوں، انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کی نبض کا جائزہ لینا ہوگا۔ دیکھنا ہوگا کہ کیا ان میں سے کوئی ایک ستون بھی متزلزل ہے؟ کیا یہ خطرہ منڈلا رہا ہے کہ کسی آن، اِن میں سے کوئی ستون دھڑام سے گر جائے گا اور ریاست کا آئینی نظم اِس ملبے تلے دب جائے گا؟ ایسا کچھ نہیں۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ صورتِ حال یہ ہے کہ صوبوں اور وفاق کی سطح پر سارے معاملات، معمولات کے مطابق چل رہے ہیں۔ صوبوں میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے انتظامی وجود کو کسی بھونچال کا کوئی خطرہ نہیں۔ یہی کیفیت وفاقی حکومت کی ہے جس کا انتظامی کنٹرول پوری طرح استوار ہے۔ وزیراعظم اور اُن کی کابینہ، اپنی ترجیحات کے مطابق فرائضِ منصبی ادا کر رہے ہیں۔ 2024ءکے انتخابات سے جنم لینے والی پارلیمنٹ پر اُسی طرح کی انگلیاں اٹھ رہی ہیں جس طرح 2018ءکے انتخابات پر اُٹھی تھیں۔ آج اِسے فارم 45اور 47 کی کرتب کاری کا نام دیا جارہا ہے، 2018 میں اِسے آرٹی ایس کی حرکتِ قلب بند ہوجانے سے تعبیر کیا گیا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اُس وقت کی زخم خوردہ اپوزیشن دھرنوں، لانگ مارچوں، 9 مئی جیسی یلغار، الجہاد الجہاد اور مارو یا مرجائو کے نعروں، پٹرول بموں، برازیلی آنسو گیس کے شیلز اور وفاق پر لشکر کشی کے بجائے، پارلیمنٹ میں آبیٹھی تھی اور ضربِ کاری کیلئے کسی موزوں وقت کا انتظار کرنے لگی تھی جو اُسے پونے چار برس بعد مل گیا۔
عرفان صدیقی کے بقول چاروں صوبائی اسمبلیاں اور پارلیمنٹ بے خوف وخطر اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ انتخابات پر اُنگلیاں اٹھانے والی جماعتیں، بشمول پی ٹی آئی، صوبائی اور وفاقی ایوانوں کا حصہ ہیں اور اپنا متحرک کردار ادا کررہی ہیں۔ ’سیاسی عدم استحکام‘ یا انتشار اُس وقت جنم لیتا ہے جب ہارنے والے، اسمبلیوں میں جانے اور حلف اٹھانے سے انکار کردیں۔ 1977ءمیں پاکستان قومی اتحاد نے یہی کیا تھا جس کے باعث بحرانوں کے دہانے کھُل گئے اور معاملات سنبھالے نہ سنبھلے۔ آج کا منظر نامہ بہت مختلف ہے۔ رہی عدلیہ، تو وہ عدمِ استحکام، داخلی ہیجان، گروہ بندی، باہمی کشمکش اور آئین و قانون سے متصادم، سیاست زدہ فیصلوں کے عہدِ بے ننگ ونام کو پیچھے چھوڑ آئی ہے۔ چھبیسویں آئینی ترمیم نے عدالتی مہم جویانہ سوچ کے پَر کاٹ دئیے۔ اِس ترمیم سے اٹھنے والا طوفان، اب محض ایک معزز جج صاحب کے جگر میں پیوست، تیرِنیم کش کی خلش بن کے رہ گیا ہے۔
سو تینوں ریاستی ستون، مبینہ ’’سیاسی عدم استحکام‘‘ کے اثراتِ بد سے پاک ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ میں عدم استحکام کا لاوہ دو طاقت ور آتش فشانی دہانوں سے پھوٹتا رہا ہے۔ ایک اسٹیبلشمنٹ اور دوسرا ایوان صدر۔ آج حکومت، ایوانِ صدر اور اسٹیبلشمنٹ کی تکون کے تینوں زاویے بڑے قومی اہداف کیلئے یکسُوئی اور مضبوطی سے ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کا نوماہی عہد، خارجہ حکمت عملی اور عمومی صورتِ حال بارے ادنیٰ سے عدم استحکام کا اشارا تک نہیں دیتا۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ نو ماہ میں حکومت کی معاشی کارکردگی، بہت عمدہ نہ سہی لیکن ہر پہلو سے تسلی بخش ضرور رہی ہے۔ کم وبیش تمام اشاریے مثبت ہیں۔ 24 برس بعد پاکستان کے اخراجات جاریہ یعنی (Current Account) میں خسارہ نہ صرف ختم ہو گیا ہے بلکہ محصولات میں اضافے کے باعث مالی توازن فاضل ہوگیا ہے۔ بیرون ملک سے پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ اس مالی سال کے اختتام تک یہ رقم 35 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ زرمبادلہ اگلے برس 13 ارب ڈالر ہوجائینگے۔ برآمدات میں اضافے کا رجحان نہایت قوی ہے۔
افراط زر یعنی مہنگائی کی شرح، جو 33 فی صد تک جا پہنچی تھی، اب 5 فی صد تک آگئی ہے۔
اسی طرح پی ٹی آئی دور میں لگ بھگ 30 ہزار تک گرجانے والی اسٹاک ایکسچینج اب ایک لاکھ بیس ہزار کو چھو رہی ہے۔ شرح سود 22 فی صد سے کم ہوکر 13 فی صد تک آچکی ہے۔ براہ راست سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ روپیہ مستحکم ہے۔ مشکل صورتِ حال اور منفی کوششوں کے باوجود آئی ایم ایف سے ایک بڑا پروگرام طے پاگیا ہے۔ دیوالیہ پن کا خطرہ ٹل چکا۔ ’سی پیک‘ پھر سے انگڑائی لے رہا ہے۔ شرح نمو میں بہتری آ رہی ہے اور مجموعی طو رپر نوماہ کی کارکردگی نے پونے چار برس کی بے ثمری کے اثرات کو قابلِ قدر حد تک زائل کر دیا ہے۔ سو برسرِ زمین کسی نام نہاد ’عدم استحکام‘ کے منحوس سایے کا شائبہ تک بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ ریاستی نظم، تمام آئینی ادارے اور معمولاتِ حیات مربوط انداز میں چل رہے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بیانیہ تراشی اور ذہن سازی کے ہُنر میں طاق قبیلے نے تخیلاتی ’سیاسی عدم استحکام‘ کو سکّہ رائج الوقت بنادیا ہے۔ اِس ’عدم استحکام‘ کی روحِ تخلیق صرف یہ ہے کہ ایک جماعت اقتدار سے باہر ہے، مشکل میں ہے اور اِس صورتِ حال سے نکلنے کیلئے آتشِ زیرپا ہے۔ اسے وہ ’’سیاسی عدمِ استحکام‘‘ کا نام دیتی ہے۔ اِس کے نزدیک ’سیاسی استحکام‘ کا نسخہ کیمیا یہ ہے کہ اس کے مطالبات مان کر اُس کی مشکلات کا ازالہ کر دیاجائے۔
مذاکرات شروع ہونے کے باوجود کپتان کی دھمکیوں کا کیا نتیجہ ہو گا؟
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ 2013ء سے 2018ء تک بھی ایسے ’’سیاسی عدم استحکام‘‘ دیواروں سے سر پھوڑتے رہے اور پاکستان پوری آب وتاب سے آگے بڑھتا رہا۔ گزشتہ نو ماہ کی تاریخ ایک بار پھر یہی بتاتی ہے۔