کیا فیض حمید کو سزا کے بعد فیض مائنڈ سیٹ ختم ہو پائے گا؟

جیو ٹی وی سے وابستہ معروف اینکر پرسن حامد میر نے کہا ہے کہ فیض حمید ایک شخص کا نہیں بلکہ ایک مائنڈ سیٹ کا نام ہے جسے بدلنا ضروری ہے تاکہ کوئی نیا فیض حمید پیدا نہ ہو سکے۔ انکے مطابق فیض مائنڈ سیٹ کو صرف اور صرف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر ختم کر سکتے ہیں اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گے تو یہ ان کا پاکستان پر ایک احسان ہو گا۔
روزنامہ جنگ کے لیے سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ وقت اس تیزی سے گزرتا ہے کہ پتہ بھی نہیں چلتا۔ یہ وہ وقت تھا جب فیض حمید آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ آصف زرداری پاکستان چھوڑ جائیں لیکن زرداری اپنی ہٹ دھرمی کے باعث پاکستان سے باہر جانے کی بجائے جیل چلے گئے۔ اُن پر دباؤ ڈالنے کیلئے اُنکی بہن فریال تالپور کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ فیض نے بلاول سے کہا کہ اپنے باپ کوسمجھاؤ، ہم اُسے علاج کی خاطر بیرون ملک جانے کی اجازت دیدیں گے لیکن بلاول نے فیض کو ناں کہہ دی۔ انہی دنوں زرداری کا پروڈکشن آرڈر جاری ہوا تو وہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کیلئے پارلیمنٹ ہاؤس آئے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ عمران خان دور حکومت میں بلاول بھٹو زرداری انسانی حقوق کی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئر مین تھے ۔ اُنکے چیمبر میں زرداری صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میرا تو پروڈکشن آرڈر جاری ہوجاتا ہے لیکن تمہارے دوست عمران خان کا تو پروڈکشن آرڈر بھی جاری نہیں ہوا کرے گا۔ میں نے پوچھا کہ عمران کا پروڈکشن آرڈر کیوں جاری نہیں ہو گا ؟ زرداری صاحب نے دعویٰ کیا کہ وہ جس راستے پر چل رہا ہے اُس کی وجہ سے وہ اگلی پارلیمنٹ کا رکن نہیں ہو گا، بس جیل میں ہی رہے گا ۔ یہ سُن کر میں نے کہا کہ کیوں نہ آپکے ساتھ ایک باقاعدہ انٹرویو ہو جائے ؟ زرداری صاحب نے کہا کہ میں تو تیار ہوں لیکن تم سوچ لو۔ میرا انٹرویو اپنے ٹی وی چینل پر نشر کر بھی سکو گے یا نہیں ؟ میں نے کچھ سوچا کیونکہ عمران خان کے دور میں ایک بات مریم نواز کا انٹرویو رک چکا تھا لیکن پھر سوچا کہ زرداری صاحب ایک تجربہ کار اور محتاط سیاستدان ہیں وہ کوئی ایسی بات نہیں کرینگے جو انٹرویو روکنے کی وجہ بنے میں نے انہیں یقین دلایا کہ آپ کا انٹرویو نہیں رکے گا۔ اگلے دن میں نے اُنکا انٹرویو کر لیا۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ شام کو آٹھ بجے انٹرویو نشر ہونا شروع ہوا لیکن کچھ دیر بعد سکرین سے غائب ہو گیا۔ یہ انٹرویو نشر ہو جاتا تو شائد اتنی بڑی خبر نہ بنتی لیکن اس کا رک جانا ایک انٹرنیشنل سٹوری بن گئی۔ پتہ چلا یہ انٹرویو فیض حمید نے رکوایا تھا۔ کچھ عرصے بعد آصف زرداری رہا ہو گئے۔ فیض حمید ایک طرف تو جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دلوانے کیلئے اُن کی منتیں کرتا تھا لیکن دوسری طرف اُنکے کاروباری دوستوں کو تنگ بھی کرتا تھا۔ ایک دن زرداری صاحب نے فیض سے دو افراد کی موجودگی میں کہا کہ اللّٰہ سے ڈرو کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دن تمہاری فائل میرے پاس آئے اور تمہاری تقدیر کا فیصلہ میرے ہاتھوں ہو۔ فیض حمید نے بڑی رعونت کیساتھ قہقہہ لگایا اور کہا ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ آج آصف زرداری صدر پاکستان ہیں اور فیض حمید ایک سزا یافتہ مجرم ہے جس پر ابھی مزید مقدمے بھی چلنے ہیں۔
حامد میر کہتے ہیں کہ کسی سزا یافتہ مجرم پر تنقید کرنا بہت آسان ہے لیکن جب یہ مجرم فوجی وردی میں ملبوس تھا اور ایک مافیا ڈان کی طرح پورا سسٹم چلا رہا تھا تو ان دنوں اس پر تنقید بہت مشکل کام تھا۔ تب کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو بھارت سے دوستی اور اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی بڑی جلدی تھی۔ وہ صحافیوں اور ٹی وی اینکرز کو بلا کر کہتے تھے کہ بھارت سے دوستی اور اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات کے قیام میں ہماری مدد کریں۔ لیکن میرا ہمیشہ یہ موقف ہوتا کہ ان معاملات پر پارلیمنٹ سے فیصلہ لیں۔ اس پر جنرل باجوہ ناراض ہو جاتے۔ چنانچہ فیض کے اشارے پر کبھی اسلام آباد ہائی کورٹ مجھ پر قتل کیس درج کرنے کا حکم دیتی اور کبھی کوئی مجھ پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا دیتا۔
سینئیر اینکر پرسن کا کہنا ہے کہ ایک روز فیض حمید نے کرنل لیاقت کے ذریعے مجھے ملاقات کا پیغام بھیجا تو میں نے جواب دیا کہ آپ نے جو بھی بات کرنی ہے آئی ایس پی آر کے ذریعہ کریں۔ کچھ عرصے بعد میرے پروگرام پر پابندی لگا دی گئی اور مجھے کہا گیا کہ خاموشی سے گھر بیٹھ جاؤ یا ایک ٹی وی چینل کے پریذیڈنٹ بن جاؤ۔ میں نے معذرت کی تو ایک اور ٹی وی چینل کا مالک بننے کی آفر ہوئی۔ مجھے حیرت ہوئی کیونکہ یہ چینل دراصل فیض حمید کا تھا۔ تاہم میں نے واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھنے شروع کر دئیے۔ اُن دنوں مولانا فضل الرحمان نے جنرل باجوہ کے بارے میں’’نکے دا ابّا‘‘کی اصطلاح استعمال کی تو میں نے 25 اکتوبر 2021 کو’’نکے دا اصلی ابا ‘‘ کے عنوان سے لکھے گے کالم میں بتایا کہ جنرل فیض حمید آرمی چیف بننے کی تیاری میں ہے۔ 31 اکتوبر 2021 ء کے کالم میں موصوف کو’’ڈبل شاہ‘‘کا لقب دیا جسکے بعد مجھے انکا پیغام ملا کہ میں آئی ایس آئی میں رہوں یا نہ رہوں لیکن تمہیں کسی پاکستانی چینل پر نہیں آنے دوں گا۔
لیکن عمران کی وزارت عظمی کے دوران فیض حمید اینڈ کمپنی جس حد تک گر چکے تھے اس کا نتیجہ جلد سامنے آ گیا اور عمران حکومت تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ختم ہو گئی۔ اقتدار سے فارغ ہونے کے بعد عمران خان کو اپوزیشن کی سیاست کرنی چاہیے تھی لیکن انکی سیاست فیض حمید کے ہاتھوں یرغمال بن گئے جو ہر صورت میں آرمی چیف بننا چاہتا تھا۔ فیض اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے ایک طرف تحریک انصاف کو استعمال کر رہا تھا تو دوسری جانب مسلم لیگ ن کو وفاداری کا یقین دلا رہا تھا۔ حامد میر کے بقول فیض حمید نے آرمی چیف بن کر ملک میں صدارتی نظام نافذ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ انکا کہنا یے کہ فیض حمید کو ملنے والی سزا فوج کی سیاست میں مداخلت کی حوصلہ شکنی کا آغاز ہے۔ تین سال پہلے جب فیض حمید نے مجھ پر پابندی لگوائی تو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اتنی تیزی سے عبرت کی مثال بنے گا ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ فیض کو ملنے والی سزا نے مجھے خوفزدہ کر دیا ہے ۔ ہم سب کو اللہ تعالی سے دعا مانگنی چاہئے کہ ہم غرور اور رعونت سے ہمیشہ دور رہیں ۔
