کیا حکومت عمران سے تین مطالبات پر مذاکرات کرے گی؟

اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں پی ٹی آئی کے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج سے پہلے مقتدر قوتوں سے مذاکرات کا چرچا زوروں ہے اور تحریک انصاف کی جانب سے دعوے کئے جا رہے ہیں کہ وہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی سمیت اپنے چاروں مطالبات منوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔تاہم مبصرین کے مطابق تحریک انصاف کو عوام کی عدم شرکت کی وجہ سے احتجاج کی ناکامی کا خطرہ ہے اسی وجہ سے پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے تاکہ اس بہانے سے احتجاج کو موخر کیا جا سکے تاہم حقیقت یہ ہے کہ نہ تو حکومت تحریک انصاف سے مذاکرات کرنے کیلئے تیار ہے اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ دوبارہ بانی پی ٹی آئی پر اعتماد کرنے پر آمادہ ہے جبکہ کوئی بھی شخص عمران خان کے قول و فعل کی گارنٹی دینے پر تیار نہیں اس لئے ایسے میں مقتدر قوتوں کے پی ٹی آئی سے مذاکرات کی کامیابی کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم اس بات کا امکان ضرور موجود ہے کہ حکومت پی ٹی آئی کو مذاکرات کے نام پر فیس سیونگ دینے پر آمادہ ہو جائے تاکہ تحریک انصاف اس بہانے احتجاج کی فائنل کال واپس لے لے۔

واضح رہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی،  26ویں ترمیم کی واپسی، پی ٹی آئی قیادت کے خلاف درج مقدمات کے خاتمے، گرفتار کارکنان و قائدین کی رہائی اور انتخابی مینڈیٹ کی واپسی کے مطالبات کیے گئے ہیں۔

تاہم یہاں یہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تمام مطالبات مانے جائیں گے یا پھر اگر حکومت صرف عمران خان کو رہا کرنے پر آمادہ ہو جائے تب بھی کوئی بات بن سکتی ہے۔ تاہم عمران خان کی رہائی میں حکومت کے کسی قسم کا کردار ادا کرنے کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج اور مذاکرات کے حوالے سے سینییئر اینکر اور تجزیہ کار منیب فاروق کا کہنا ہے: ’موجودہ صورت حال سے یہی لگتا ہے کہ کوئی پالیسی شفٹ نہیں ہے لیکن منطق کی بات کریں تو عمران خان نے جیل سے باہر تو آنا ہے، ابھی نہیں تو اگلے چار، چھ یا آٹھ مہینے کے بعد ان کے باہر آنے کا کوئی نہ کوئی راستہ تو بنے گا۔

منیب فاروق کے مطابق’اگر اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی کی بات کی جائے تو وہ عمران خان کی طرف فی الحال تبدیل نہیں ہو گی کیونکہ مسائل اپنی جگہ کھڑے ہیں جنہیں میں فوری طور پر حل ہوتا نہیں دیکھتا البتہ منطق یہ کہتی ہے کہ عمران خان کو اب باہر آ جانا چاہیے لیکن اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو ان کا باہر آنا ابھی دکھائی نہیں دیتا۔‘

منیب فاروق کے بقول’میں عمران خان کو جیل سے فوری باہر آتا نہیں دیکھ رہا ہاں کچھ مہینوں بعد شاید ایسا ہو سکے۔ تاہم رہائی کے بعد ان کا واپس اقتدار میں آنا اگلے دو تین سال تک ممکن نہیں‘

اس حوالے سے سینئیر تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے: ’پی ٹی آئی کے لیےکال کی ٹائمنگ بہت اہم ہے کیونکہ 26 ویں آئینی ترمیم اور سروسز چیف کی مدت میں اضافے کے بعد سے ان پر جھنجھلاہٹ طاری ہے اس سے پی ٹی آئی کے کمزور اور حکومت کے مضبوط بننے کا تاثر ابھرا ہے۔

’پی ٹی آئی نے اس کیفیت سے نکلنے کے لیے امریکی صدارتی انتخابات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اور تاثر بھی یہی ہے کہ وہاں ان کی پارٹی نے ٹرمپ کے حق میں مہم چلائی اور ٹرمپ کے جیتنے سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور یہ اسے یہاں کیش کروانا چاہتے ہیں۔کیا یہ ممکن ہو پائے گا؟ فی الحال تو ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا

سلمان غنی کے مطابق پی ٹی آئی کے احتجاج کے کامیاب ہونے کے امکانات معدوم ہیں کیونکہ ابھی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں اور بڑا چیلنج معیشت اور دہشت گردی ہے۔ اس لیے مذاکرات کے لیے لچک تو دکھائی جا رہی ہے مگر اس پر پیش رفت ہو گی یا نہیں اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘

سلمان غنی کا کہنا تھا: ’جہاں تک ان کے احتجاج کا سوال ہے، پختونخوا کی سطح تک تو کامیاب ہو سکتا ہے مگر اسلام اباد میں کوئی یلغار نہیں کرنے دے گا۔ پنجاب البتہ چارج ہوتا نظر نہیں آتا۔ ایک تو کارکنوں میں مایوسی ہے تو دوسرا انتظامی مشینری بڑی متحرک ہے لہذا ادھر تو حکومت مطمئن ہے۔ جہاں تک ان کے مطالبات کا سوال ہے تو سیاسی مذاکرات میں مطالبات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ مطالبات کرنے والوں کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ یہ ممکن نہیں اور جن سے کیے جاتے ہیں وہ بھی اس پر توجہ نہیں دیتے۔‘

پارٹی ہدایت کی خلاف : الیکشن کمیشن نے ایم این اے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کردیا

 کیا 26ویں آئینی ترمیم ختم ہو گی کیا حکومت پسپائی اختیار کر لے گی؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا ممکن نہیں، البتہ ایسی اطلاعات ہیں کہ عمران کی رہائی ہو سکتی ہے مگر اس کا راستہ عدالت ہی نکالے گی اور جو چیزیں طے ہوں گی اس پر پی ٹی آئی کو آنا ہو گا۔

سلمان غنی کے مطابق جہاں تک لانگ مارچ کی نتیجہ خیزی کا سوال ہے، تو اس حوالے سے اثرات اچھے نہیں، ہو سکتا ہے کہ اس کی نوبت نہ آئے اور کسی غیر اعلانیہ یقین دہانی پر فائنل احتجاج کو موخر کر دیا جائے اس میں گنڈا پور کی عمران خان سے آخری ملاقات کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔‘

Back to top button