کیا پی ٹی آئی قیادت بلاول بھٹو کی ثالثی قبول کرنے پر تیار ہو گی؟

بلاول بھٹو کی جانب سے حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین ثالثی کی پیشکش نے ملکی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے، جہاں ایک طرف حکومت کی جانب سے چئیرمین پیپلز پارٹی کی آفر کو قبول کرتے ہوئے تحریک انصاف سے معاملات آگے بڑھانے کی ذمہ داری بھی بلاول بھٹو کو دے دی ہے وہیں دوسری جانب مبصرین کے مطابق موجودہ ملکی حالات میں بلاول بھٹو کی جانب سے ثالثی کی پیشکش خوش آئند ہے تاہم ماضی کو مدنظر رکھا جائے تو پی ٹی آئی کی جانب سے اس حوالے سے کوئی مثبت جواب آنے کے امکانات معدوم ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ ہم بیک وقت حکومت میں بھی ہیں اور اپوزیشن میں بھی اس طرح ہم حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور وہ جماعتیں جو قومی سلامتی کمیٹی میں شریک نہیں ہوئی تھیں انہیں بھی انگیج کرنے کیلئے تیار ہیں ۔بلاول بھٹو کی اس پیشکش پر وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ نے منگل کو ایک نجی ٹی وی پروگرام میں اپنے ردعمل میں کہا کہ اگر بلاول بھٹو اس حوالے سے تحریک انصاف کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ بلانے میں کوئی حرج نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر بلاول بھٹو پی ٹی آئی سے مذاکرات کی راہ ہموار کر لیتے ہیں اور ان سے یقین دہانیاں بھی حاصل کر لیتے ہیں تو یہ بڑی کامیابی ہو گی ، گو کہ ابھی تک حکومت کی جانب سے باضابطہ طور پر بلاول بھٹو کی جانب سے ثالثی قبول کرنے کی پیشکش اور انہیں پی ٹی آئی سے مذاکرات کیلئے کوئی گرین سگنل سامنے نہیں آیا تاہم اس حوالے سے گفتگو موضوع بحث ضرور بن گئی ہے۔

مبصرین کے مطابق، اگر مفروضے کے طور پریہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ وفاقی حکومت بلاول بھٹو کی جانب سے پی ٹی آئی کےساتھ ثالثی کی پیشکش پر آمادگی اور مذاکرات کیلئے تعاون کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہے تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی جانب سے وفاقی حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان حل طلب معاملات پر کامیاب مذاکرات کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرنے سےمطلوبہ مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں؟کیا قیدی نمبر 804 پیشرفت بارے تعاون پر رضا مند ہونگے؟کیا حکومت اور اپوزیشن کے اتحادی اس فیصلے کو قبول کریں گے؟ کیا یہ ’’سیاسی مشق‘‘کامیاب ہو گی یا اس عمل کے دوران نئے تنازعات جنم لیں گے؟

پاکستانی دہشت گرد تنظیمیں اپنے خالقوں کے ہاتھوں سے کیوں نکل گئیں ؟

تجزیہ کاروں کے مطابق بلاول بھٹو کی جانب سے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے قومی اتفاق رائے کی بات پر سب مطمئن ہیں تاہم اگر بلاول بھٹو اس حوالے سے خود قدم آگے بڑھاتے ہیں تو یہ بات مزید آگے چل سکتی ہے۔سینئر صحافی سلمان غنی کے مطابق بلاول کہتے ہیں کہ وہ نہ حکومت ہیں اور نہ اپوزیشن تو اس پر تو دو آرا ہیں مگر پیپلزپارٹی آج کی کیفیت میں اگر قومی اتفاق رائے کیلئے کوئی کردار ادا کرنا چاہے تو اسے روکا تو نہیں جا سکتا مگر واقفان حال کا کہنا ہے کہ حکومت کو تو بلاول بھٹو کی ثالثی یا قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ بلانے پر کوئی اعترض نہیں مگر ایسے اجلاس میں شرکت پر پی ٹی آئی اور مقتدر قوتوں کو آمادہ کرنا اتنا بھی آسان کام نہیں ہے۔ اس لئے کہ حکومت یا اسکے اتحادی کوئی بڑا کردار ادا کرنے میں کتنے بااختیار ہیں یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں سلمان غنی کے بقول سب سے پہلے اس نیک کام میں صدر آصف زرداری کو آگے آنا چاہئے جو وفاق کی علامت کے ساتھ کچھ بڑا کرنے اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کی پوزیشن میں ہیں باوجود اس امر کے کہ پیپلز پارٹی کی کمان بلاول بھٹو کے پاس ہے مگر عملاً فیصلہ سازی میں اصل کردارصدرزرداری کا ہے لہذا اس سنجیدہ اور پیچیدہ کام کیلئے صدر کی جانب سے بھی تائید آنی چاہئے

تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ جہاں تک دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لینے کیلئے اجلاس کا سوال ہے تو بلا شبہ نیا اجلاس بلانے میں کوئی قباحت نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی اس کے لئے اپنی شرائط پر کاربند نظر آئے گی جن نکات کی بنا پر وہ پہلے نہیں آئی اب بھی انھی شرائط کی وجہ سے دوبارہ اجلاس میں شریک نہیں ہو گی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کیلئے اجلاس میں شرکت کے حوالے سے پی ٹی آئی کی شرائط کو تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ پی ٹی آئی کی شرائط کا تعلق حکومت اور اتحادیوں سے زیادہ فیصلہ کن حلقوں سے ہے اور اطلاعات ہیں کہ وہ اس ضمن میں کوئی لچک دکھاتے نظر نہیں آرہے۔ مبصرین کے مطابق اسکی بڑی وجہ خود بانی پی ٹی آئی عمران خان کا طرزعمل ہے کیونکہ جیسے ہی معاملات بہتری کی جانب جانا شروع ہوتے ہیں عمران خان کے ٹویٹر اکائونٹس سے ایسی باتیں سامنے آتی ہیں جس سے مسائل سلجھائو کی بجائے اور الجھاؤ سے دو چار ہو جاتے ہیں ۔

ماہرین کے مطابق اگر پی ٹی آئی قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں آجاتی تو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی میں نا صرف ڈیڈلاک ختم ہوجاتا بلکہ تحریک انصاف کیلئے ریلیف کی راہیں بھی کھل سکتی تھیں تاہم عمرانڈو قیادت نے ایک اور موقع مس کر دیا۔ پی ٹی آئی سے اجلاس کا بائیکاٹ کرانے والوں نے ملک کی بجائے اپنا مذموم کھیل کھیلا اور اب بھی وہی کھیل کھیلنے پر بضد ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جب تک پی ٹی آئی یہ فیصلہ نہیں کرتی کہ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ میں سے انکا اصل ٹارگٹ کون ہے  تب تک وہ کسی بھی ایشو پر یکسو نہیں ہو پائے گی مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے مثبت سیاسی طرز عمل اپنانے کے فیصلے سے ہی بلاول بھٹو کی جانب سے آنے والی حقیقت پسندانہ تجویز پرپیشرفت ممکن ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ جب تک اپوزیشن کو ساتھ لیکر ایشوز پر بات نہیں ہو گی ملک آگے نہیں چل سکے گا ۔

Back to top button