کیا ٹرمپ ایک مرتبہ پھر پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کو ترجیح دے گا؟
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ماضی میں امریکہ کا سٹریٹیجک پارٹنر رہنے کے باوجود سال 2025 پاکستان کے لیے مشکل سال ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اسے اندرونی سیاست اور معیشت کی بحالی کے ساتھ خارجہ پالیسی اور سکیورٹی کے چیلنجوں کا سامنا ہو گا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی غیر یقینی صورت حال کو جنم دے گی کیونکہ ان کی جنوبی ایشیائی پالیسی ممکنہ طور پر انڈو-پیسیفک حکمت عملی کے مطابق ہو گی اور وہ ماضی کی طرح اس بار بھی پاکستان کی بجائے بھارت کو زیادہ ترجیح دیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے اگرچہ پاکستان تاریخی طور پر امریکہ کا سٹریٹیجک پارٹنر رہا ہے، لیکن ٹرمپ کے دور میں امریکی خارجہ پالیسی کی غیر یقینی نوعیت دونوں ممالک کے تعلقات میں نمایاں تبدیلیاں لا سکتی ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ آیا ٹرمپ کا اقتدار پاکستان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا یا نہیں؟
خیال رہے کہ2021 میں جہاں پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا اسی دوران افغانستان سے یک دم امریکی انخلا نے دونوں ممالک کے تعلقات کے مستقبل کے بارے میں کئی سوال چھوڑ دیے۔ ٹرمپ کی پہلی صدارت کے دوران پاکستان پر حقانی نیٹ ورک اور طالبان جیسے عسکریت پسند گروہوں کے خلاف سخت موقف اپنانے کا دباوٴ رہا جنہیں امریکی مفادات کے لیے خطرہ سمجھا جاتا تھا۔ جنوری 2018 میں ٹرمپ نے ٹوئٹر کے ذریعے پاکستان پر امریکہ کو دھوکہ دینے اور دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگایا تھا جس کے نتیجے میں دو ارب ڈالرز کی فوجی امداد معطل کر دی گئی تھی۔
اب ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے سے پہلے ہی بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان اور چین کے کئی بڑے اداروں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں اور یہ الزام لگایا ہے کہ اس کا میزائل پروگرام امریکہ کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ممکن ہے کہ امریکہ افغانستان میں براہِ راست مداخلت سے گریز کرے لیکن وہ پاکستان سے علاقائی استحکام قائم کرنے کا مطالبہ کر سکتا ہے تاکہ افغانستان کو دوبارہ دہشت گردی کا مرکز بننے سے روکا جا سکے۔ اس سب کے پیش نظر پاکستان پر افغان طالبان کے ساتھ متوازن تعلقات رکھنے اور ساتھ ہی امریکہ کے ساتھ روابط کو برقرار رکھنے کا شدید دباوٴ ہو گا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے چونکہ افغانستان اب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا مرکزی نکتہ نہیں رہا، اس لیے سوال یہ ہے کہ آیا ٹرمپ کے دور صدارت میں پاکستان امریکی ایجنڈے میں اہم رہے گا بھی یا نہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان دوبارہ ٹرمپ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گا یا صدر ٹرمپ صرف موجودہ لیول کے پاک امریکہ سفارتی تعلقات پر ہی اکتفا کریں گے، اگر ایسا ہوا تو دونوں ممالک کے مابین اقتصادی اور عسکری تعلقات میں بہتری کا امکان نہ ہونے کے برابر رہے گا۔
یاد رہے کہ ٹرمپ کی پہلی حکومت کی انڈو- پیسیفک یعنی پرو انڈیا حکمت عملی کا مقصد خطے میں بھارت کی پاکستان پر برتری قائم کرنا تھا تاکہ چین کا مقابلہ کیا جا سکے۔ لہذا ٹرمپ کی دوسری دور صدارت کے دوران انکی انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کے حقاکے سے زیادہ سخت موقف اپنانے کی توقع کی جا رہی ہے، جس میں ممکنہ طور پر پاک چین سی پیک پروجیکٹ کے حوالے سے بھی پاکستان پر دباؤ آئے گا۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے اپنی نئی انتظامیہ میں کی جانے والی ہے تقرریاں بشمول سیکریٹری آف سٹیٹ اور قومی سلامتی کے مشیر ، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے لیے سازگار نہیں ہیں۔ یہ لوگ بھارت نواز ہیں اور انہیں پاکستان مخالف خیال کیا جاتا ہے۔ ٹرمپ پاکستان پر چین سے دوری اختیار کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے ٹرمپ کی لین دین پر مبنی خارجہ پالیسی کے تحت امریکہ پاکستان کو سٹریٹیجک اہداف پر ہم آہنگ ہونے کے بدلے میں فائدہ مند شرائط بھی پیش کر سکتا ہے۔
لیکن تجزیہ کاروں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ چین کے خلاف ٹرمپ کے جارحانہ رویے سے بیجنگ پاکستان سے کھلم کھلا عوامی حمایت کے اعلان کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے، جو کہ پاکستان کے لیے سفارتی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ اس وقت چین کی پاکستان سے مایوسی کا سبب سی پیک میں اس کی وسیع سرمایہ کاری ہے، جو کہ اسے کوئی خاص منافع بھی فراہم نہیں کر رہی۔ اس صورت حال میں پاکستان میں چین کے لیے مشکلات امریکہ کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہیں۔
لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کرے کیونکہ ٹرمپ کے دور میں پاکستان امریکی ترجیحات میں کم اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے۔
تاہم اس کے لیے پاکستان کو ایسے سمجھوتے کرنے پڑ سکتے ہیں جن کے اثرات اس کی خارجہ پالیسی پر مرتب ہوں گے۔ اسکے علاوہ ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت کے دوران پاکستان کے جوہری پروگرام پر سخت نگرانی جاری رہنے کا امکان ہے، اور امریکہ ممکنہ طور پر زیادہ شفافیت پر زور دے سکتا یے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا ’دباؤ‘ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو بھی ہدف بنا سکتا ہے، جو دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی میں مزید اضافہ کرے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ اور انڈیا کے تعلقات ایک حقیقت ہیں۔ ٹرمپ کی پہلی صدارت کے دوران امریکہ اور انڈیا کے درمیان کافی قربت دیکھی گئی جو چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کی کوشش تھی۔ ایسے میں اگر امریکہ انڈیا کے ساتھ تعلقات مزید بڑھاتا ہے تو پاکستان عالمی سطح پر خود کو مزید تنہا محسوس کر سکتا ہے کیونکہ انڈیا پہلے ہی جنوبی ایشیا میں علاقائی طاقت کے توازن کو تبدیل کر چکا ہے۔ حال ہی میں امریکہ میں میں متعارف کروائی گئی قانون سازی کا مقصد امریکہ اور انڈیا کے تعلقات کو بہتر بنانا ہے، جبکہ پاکستان پر مبینہ طور پر انڈیا کو نشانہ بنانے والے پراکسی گروپوں کی حمایت کا الزام لگا کر تنقید کی جا رہی ہے۔ ٹرمپ کی ٹیم یقینی طور پر انڈیا اور امریکہ کے درمیان فوجی شراکت داری، بشمول ٹیکنالوجی کی منتقلی، کے حوالے سے پاکستان کی تشویش کو بڑھائے گی۔ ان رجحانات کے پیش نظر پاکستان کو دی جانے والی امریکی امداد میں مزید کمی ہو سکتی ہے اور امریکی فنڈز صرف انسداد دہشت گردی اور سکیورٹی جیسے مخصوص عوامل کے لیے مختص کیے جانے کا خدشہ ہے۔
اس کے علاوہ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ پاکستان پر محصولات عائد کر سکتے ہیں یا امریکی امداد کی شرائط کو تبدیل کر سکتے ہیں، جس سے پاکستان کی معیشت متاثر ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر امریکہ پاکستان کی عالمی منڈیوں تک رسائی کو محدود کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پاکستان کے لیے بین الاقوامی قرضے حاصل کرنا یا غیر ملکی سرمایہ کاری کو یقینی بنانا مشکل ہو سکتا ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر مشرق وسطیٰ میں کشیدگیاں، خاص طور پر ایران کے ساتھ، بڑھتی ہیں تو امریکی مفادات کے لیے پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، زیادہ تر ماہرین پاکستان کو نئی انتظامیہ کے لیے کم ترجیح سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کے داخلی معاملات کے حوالے سے عمران خان کی ٹیم امید کرتی ہے کہ ٹرمپ کی واپسی ان کے سیاسی مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
چنانچہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ایک نازک موڑ پر ہیں اور یہ واضح نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں کتنی دلچسپی لے گی۔ لہذا ایک ایسے وقت مین کہ جب پاکستان کو ایک مشکل جغرافیائی سیاسی منظر نامے کا سامنا ہے تو اس کی قیادت کو بدلتے ہوئے اتحادوں کے درمیان سازگار نتائج حاصل کرنے کے لیے محتاط حکمت عملی اپنانا ہو گی۔