عمران خان کھائی میں گرنا پسند کریں گے یا کنویں میں؟
تحریک انصاف میں وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے خلاف اندرونی بغاوت کے بعد وزیر اعظم عمران خان مشکل ترین صورت حال میں پھنس چکے ہیں اور ان کے لیے اپنے وسیم اکرم پلس کو بچانا ناممکن ہوگیا ہے۔ کپتان کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اگر وہ پنجاب کی حکومت بچانے کے لیے عثمان بزدار کی قربانی دینے پر آمادہ ہو بھی جاتے ہیں تو نہ تو ترین گروپ پرویز الہی کو بزدار کی جگہ وزیر اعلی قبول کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی چوہدری برادران عبدالعلیم خان کو وزیر اعلی تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔
خان کے لئے مشکل در مشکل یہ ہے کہ ان دونوں میں سے جس گروپ کو بھی وزارت اعلی ملی گی، اسکا مخالف حزب اختلاف کے ساتھ جا ملے گا اور یوں مرکز میں عمران خان کی حکومت بھی ختم ہو جائے گی۔ ایسے میں عمران کے لیے آگے کنواں اور پیچھے کھائی ہے اور انہیں کسی ایک میں گرنا یے۔
ایسے میں عمران خان ایک گھن چکر میں پھنس چکے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ایک جانب اپوزیشن مرکز میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد داخل کروا چکی ہے تو دوسری طرف وزیراعلی پنجاب کے خلاف پی ٹی آئی کے اندر ہی سے بغاوت ہو چکی ہے۔ اگر تو اپوزیشن کی حد تک مخالفت ہوتی تو عمران ’این آر او نہیں دوں گا‘ کہہ کر دوبارہ ڈٹ جاتے، لیکن اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔
صرف اپوزیشن ہی نہیں بلکہ کپتان کی اپنی جماعت کے ناراض ارکان اپنے عثمان بزدار کے خلاف صف آرا ہو چکے ہیں۔ کپتان کے سابق دوست جہانگیر خان ترین دھڑے سے تعلق رکھنے والے علیم خان گروپ نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ حکومت سے تب مذاکرات کریں گے جب عثمان بزدار کو ہٹانے پر آمادگی کا اظہار کردیا جاتا ہے۔
8 مارچ کے روز وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد داخل ہو رہی تھی تو الیکٹرونک میڈیا پر ایسی خبریں چلیں کہ عثمان بزدار نے اسلام آباد میں وزیراعظم کو اپنا استعفیٰ پیش کرتے ہوئے پرویز الٰہی کو نیا وزیر اعلیٰ بنانے کی سفارش کی ہے اور کہا ہے کہ انہیں علیم خان کسی بھی صورت بطور وزیر اعلی قابل قبول نہیں ہوگا ۔ اس کے فوری بعد علیم خان کیمپ سے یہ خبر چلی کہ پرویز الہی ان کو کسی بھی صورت قابل قبول نہیں اور اگلا وزیراعلیٰ جہانگیر خان ترین کی مرضی سے لایا جائے گا۔
اس دوران پرویزالٰہی کی جانب سے خود کو نیا وزیر اعلیٰ تجویز کرنے پر عثمان بزدار کا شکریہ بھی ادا کر دیا گیا۔ لیکن پھر سیاسی نقشہ تبدیل ہونا شروع ہوگیا۔ سب سے پہلے وزیر اعلی پنجاب کے ترجمان نے یہ بیان جاری کیا کہ نہ تو عثمان بزدار نے وزیر اعظم کو استعفے کی پیشکش کی ہے اور نہ ہی کسی کا نام تجویز کیا ہے۔ پھر وزیراعظم ہاؤس کے ذرائع سے یہ خبر سامنے آئی کے عمران خان نے عثمان بزدار کو ڈٹ کر کھڑے رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
چند گھنٹے اور گزرے تو پتہ چلا کہ کل تک حزب اختلاف اور حکومتی قیادت سے اپنی عیادت کروانے والے سخت بیمار چوہدری شجاعت حسین اچانک اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کے گھر جا پہنچے اور اپوزیشن کی جانب سے کی گئی وزارت اعلی کی آفر قبول کرنے کا عندیہ دے دیا۔ تاہم انہیں بتایا گیا کہ وزارت اعلیٰ کی ٹرین تو شاید نکل چکی ہے لیکن آپ کو چیک کر کے جواب دیا جائے گا۔
بتایا جاتا ہے کہ فضل الرحمن اور آصف علی زرداری کی جانب سے پنجاب کی وزارت اعلی کے لیے اپنا نام تجویز کیے جانے کے بعد گجرات کے چوہدریوں میں پھوٹ پڑ گئی تھی۔ مونس الٰہی اور پرویز الہی فوری طور پر آفر قبول کرنے کی بجائے ڈبل گیم کھیلنے کے حق میں تھے جبکہ شجاعت حسین اور ان کے بیٹے سالک حسین یہ آفر قبول کرنے کے حمایتی تھے۔ لیکن پرویز الہی نے ذیادہ سیانا بننے کے چکر میں قاف لیگ کی سیاست ہی ڈبو دی کیونکہ علیم خان کے سامنے آنے کے بعد گجرات کے چوہدریوں کی حیثیت پہلے جیسی نہیں رہی۔
دوسری جانب عمران کے لیے دوہری مشکل یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد داخل کر چکی ہیں اور انہیں حکومت بچانے کے لئے ترین گروپ اور گجرات کے چوہدریوں کا بہ یک وقت ساتھ چاہیے۔ ان میں سے اگر کوئی ایک گروپ بھی ان کا ساتھ چھوڑتا ہے تو حکومت ختم ہو جائے گی۔ لہذا اب مسئلہ یہ ہے کہ وہ گجرات کے چوہدریوں کو راضی کریں یا ترین گروپ کو رام کریں کیونکہ دونوں ہی عثمان بزدار کی جگہ وزارت اعلی حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔
اگر وزیر اعظم اپنے سابقہ موقف پر قائم رہتے ہوئے عثمان بزدار کو تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ کریں تو بھی جہانگیر ترین گروپ اپوزیشن جماعتوں کی مدد سے انہیں اقتدار سے بے دخل کر دے گا۔ یہ صورت حال عمران خان کو پہلی دفعہ درپیش آئی ہے کہ انہیں اپنا اقتدار بچانے کے لیے بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے۔ اس صورت حال میں وہ کیا کر سکتے ہیں اور کیا وہ اب بھی اپوزیشن کو سرپرائز دینے کی پوزیشن میں ہیں؟
اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ عمران خان ایک بند گلی میں پھنسے ہوئے نظر آتے ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ اپنے دعووں کے مطابق اب وہ اپوزیشن کو کسی قسم کا کوئی سرپرائز دینے کے قابل رہے ہیں۔ انخے۔مطابق عمران خان کے اقتدار میں رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے بچ گیا ہے کہ وہ جہانگیر ترین اور علیم خان گروپ کو اپنے ساتھ رہنے پر منا لیں، لیکن مجھے نہیں لگتا کے اب ایسا ہو پائے گا کیونکہ عمران خان بہت لیٹ ہو چکے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے تحریک انصاف میں داخل کروائے جانے کے بعد اب کپتان کے مزید اتحادی اور ساتھی ان کا ساتھ چھوڑنے کے لئے پر تولنا شروع ہو گئے ہیں اور آنے والے دنوں میں انکی سیاسی پوزیشن مزید کمزور ہو گی۔
اس معاملے پر سینئیر صحافی طلعت حسین کا کہنا ہے کہ ’وزیراعظم کے پاس موجودہ صورت حال سے نکلنے کا سادہ راستہ یہ ہے کہ اپنے اتحادیوں اور اپنے ارکان کو راضی کریں اور انہیں اپنے ساتھ رکھیں۔ لیکن علیم خان کی پریس کانفرنس کے بعد یہ راستہ سادہ اور آسان نہیں رہا کیونکہ علیم خان نے عملی طور پر کشتیاں جلا دی ہیں۔‘
ان کے مطابق ’دوسرا راستہ یہ ہے کہ عمران خان اپنے اتحادیوں چوہدری برادران کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے دے کر عثمان بزدار کی قربانی دے دیں، لیکن اس کے لیے بھی انہیں ترین گروپ کی حمایت حاصل کرنا ہوگی اور اس کے ساتھ وفاق میں ایم کیو ایم کو بھی سنبھال کر رکھنا ہوگا۔‘ طلعت حسین کے مطابق ’یہ تمام اقدامات اٹھانے کے باوجود فلور کراسنگ کے امکانات موجود ہیں۔‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’عمران خان اتنی مشکل صورت حال کے باوجود استعفیٰ نہیں دیں گے بلکہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا کریں گے چاہے اس کا نتیجہ فراغت کی صورت میں ہی نکلے۔‘
‘میرا جسم میری مرضی’ کے نعرے کی تشریح سامنے آگئی
دوسری جانب تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال میں بلوچستان عوامی پارٹی، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور قاف لیگ بھی عمران خان سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔ لہذا اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان استعفی دیں گے یا تحریک عدم اعتماد کا سامنا کریں گے۔ بحیثیت اپوزیشن رہنما عمران خان نے وزیر اعظم نواز شریف کو مسلسل دباو میں رکھا تھا، لیکن وہ اس کے باوجود ان کا استعفیٰ لینے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے، چنانچہ اب دیکھنا ہے کہ حزب اختلاف عمران خو استعفیٰ دینے پر مجبور کر پاتی ہے یا نہیں؟