الیکشن قریب آنے کے باوجود سیاسی جماعتیں خاموش کیوں؟

پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد میں اب صرف دو مہینے رہ گئے ہیں لیکن ابھی تک انتخابی مہم کی گہما گہمی کہیں نظر نہیں آرہی۔سابق وزیر اعظم عمران خان کے پابند سلاسل ہونے کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی مہم تو ممکنہ طور پر ماند پڑے گی ہی لیکن سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم الطاف پر غیر اعلانیہ پابندی کے سبب بھی انتخابی مہم میں بہت زیادہ جوش و ولولہ کی توقع نہیں ہے۔کچھ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ انتخابات کے حوالے سے بے یقینی اور امن و امان کی صورتحال ان عوامل میں شامل ہیں جن کی وجہ سے انتخابی مہم نے ابھی تک زور نہیں پکڑا۔کچھ سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ وہ امیدواروں کا انتخاب کر رہی ہیں اور جیسے ہی وہ مرحلہ پورا ہو جائے گا وہ بھرپور طریقے سے انتخابی مہم کا آغاز کر دیں گی۔ تاہم بعض دیگر کے مطابق انتخابات کے شیڈول سے پہلے مہم میں گہما گہمی نہیں آئے گی۔

پاکستان اور افغانستان میں عسکریت پسندی اور انتہا پسندی پر گہری نظر رکھنے والے احسان اللہ ٹیپو کا کہنا ہے کہ ملک کے شمال مغربی اور مغربی صوبوں میں انتخابی مہم کو سخت سکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ ”پختونخوا میں جمیعت علماء اسلام کو قبائلی اضلاع خصوصاﹰ باجوڑ میں ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے جبکہ مکران ڈویژن اور دوسرے علاقوں میں بلوچ عسکریت پسند نہ صرف ممکنہ طور پر وفاق پسند جماعتوں کی انتخابی مہم کو ٹارگٹ کرینگی بلکہ وہ قوم پرست تنظیموں کو بھی ہدف بنائیں گی۔‘‘احسان اللہ ٹیپو کا خیال ہے کہ داعش خیبر پختونخواکے کچھ علاقوں میں بہت زیادہ سرگرم ہوگی: ”اور وہ ممکنہ طور پر ایسی مذہبی سیاسی جماعتوں کی مخالفت بھی کرے گی، جو جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہیں۔‘‘

ملک کی سیاسی افق پر اس وقت صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری مختلف جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ انہوں نے خیبر پختونخوا میں حال ہی میں کچھ جلسوں سے خطاب کیا ہے جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری نے بلوچستان میں بھی ڈیرے جمائے۔ پارٹی کی ان سرگرمیوں کے باوجود کچھ پارٹی رہنما سوچتے ہیں کہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے اب بھی ابہام ہے۔

سینیٹ کے سابق ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے ابھی تک انتخابات کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال موجود ہے۔ ”ہم انتظار کرو کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں کیونکہ پہلے کہا گیا تھا کہ انتخابی شیڈول کا پہلی دسمبر کو اعلان کر دیا جائے گا۔ اب 15 دسمبر کا کہا گیا ہے۔ تو بنیادی طور پر یہ غیر یقینی صورتحال ہے جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں نے ابھی تک بھرپور طریقے سے انتخابی مہم شروع نہیں کی ہے۔‘‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے برعکس مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ وہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ انتخابات فروری میں ہی ہوں گے نون لیگ کی الیکشن کے حوالے سے تیاریاں مکمل ہیں۔ مسلم لیگ ن کےرہنما اور سابق گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا کے مطابق”اس وقت ہمارا پارلیمانی بورڈ امیدواروں کے انٹرویو کر رہا ہے۔ ایک ایک حلقے سے دس دس، بارہ بارہ امیدوار ہیں جن کے انٹرویو کرنے ہیں۔ جیسے ہی امیدواروں کے ناموں کو حتمی شکل دی جاتی ہے ہم بھرپور طریقے سے انتخابی مہم میں شرکت کریں گے۔‘‘اقبال ظفر جھگڑا کا مزید کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کو انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہے: ”انتخابات فروری میں ہی ہوں گے اور ہم اس حوالے سے پاکستان بھر میں رابطے کر رہے ہیں۔ پنجاب ہمارا میدان جنگ ہوگا لیکن اس کے علاوہ ہم خیبر پختونخوا اور دوسرے علاقوں سے بھی انتخابات میں بھرپور حصہ لیں گے۔‘‘

واضح رہے کہ 2013ء اور 2018ء کے انتخابات میں انتخابی مہموں میں عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی اور بہت گہما گہمی دیکھی گئی تھی۔ تاہم مبصرین کے مطابق اس بار آمدہ الیکشن میں یہ گہما گہمی شاید ہی نظر آئے: ”اگر انتخابات ہوتے بھی ہیں تو بھی انتخابی مہم میں اتنی گہما گہمی نہیں ہوگی۔ پنجاب اور کے پی میں عمران خان پر غیر اعلانیہ پابندی ہے جبکہ سندھ کے شہری علاقوں کی مقبول جماعت ایم کیو ایم الطاف گروپ پر بھی پابندی ہے۔‘‘تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں انتخابی مہم کے لیے فنڈنگ بھی ایک بہت بڑا معمہ ہے۔ ماضی میں ایسی فنڈنگ بڑے کاروباری افراد، پارٹی سپورٹرز اور غیر مرئی قوتیں بھی کرتی تھیں لیکن اب یہ رجحان بدل رہا ہے۔ تاہم کچھ امیر امید وار اپنی انتخابی مہم اپنے پسیوں سے چلاتے ہیں اور پارٹی کو بھی فنڈ دیتے ہیں، جیسے کہ جہانگیر ترین، علیم خان اور تنویر الیاس۔ کچھ کاروباری افراد مخلتف جماعتوں کو فنڈز دیتے ہیں، جیسا کہ ملک ریاض، چنینوٹ اور کراچی کے کاروباری افراد۔‘‘

Back to top button