بالآخر جسٹس جاوید اقبال کے برے دن بھی شروع ہو گئے


وفاقی حکومت کی جانب سے طیبہ گل کے ہراسانی کے الزام کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کے اعلان کے بعد عمران دور میں حکومتی ٹٹو کا کردار ادا کرنے والے سابق چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کے برے دن شروع ہوتے نظر آتے ہیں۔

وفاقی وزیر برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے وفاقی کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ کابینہ نے کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت جسٹس جاوید اقبال کے خلاف تحقیقات کی منظوری دی ہے۔ وفاقی وزیر قانون کی سربراہی میں سیک کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے جو کابینہ اراکین کے ساتھ مل کر کمیشن کے ٹرم آف ریفرنسز تیار کرے گی۔ مریم اورنگزیب نے بتایا کہ ’طیبہ گل نے وزیر اعظم پورٹل پر شکایت کی تھی جس کے بعد عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکرٹری نے خاتون سے ملاقات کی۔ لیکن متاثرہ خاتون سے جسٹس جاوید اقبال کی ویڈیوز اور آڈیوز حاصل کرنے کے بعد بجائے کہ کوئی کارروائی کی جاتی، الٹا شکایت کرنے والی خاتون اور ان کے شوہر کو ڈیڑھ ماہ تک وزیراعظم ہاؤس میں قید رکھا گیا۔

مریم اورنگزیب نے سابق وزیراعظم عمران خان پر الزام عائد کیا کہ ’طیبہ گل سے شواہد لے کر چیئرمین نیب کو بلیک میل کیا گیا اور اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف جاوید اقبال سے جھوٹے مقدمات درج کروائے گئے۔

انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ وزیراعظم آفس نے ان کے کیس کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے نیب چیئرمین کو بلیک میل کیا اور شواہد کا غلط استعمال کیا۔ پی اے سی کے سامنے گواہی دیتے ہوئے طیبہ گل نے الزام لگایا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے سیٹیزن پورٹل پر شکایت درج کرانے کے بعد انہیں ملاقات کے لیے بلایا تھا۔ خاتون نےجسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا اور خفیہ طور پر ریکارڈ شدہ فوٹیج کے اسکرین شاٹس بھی منسلک کیے تھے۔ انہوں نے پی اے سی کو بتایا تھا کہ اعظم خان نے ان سے جاوید اقبال کی ویڈیو طلب کی اور انہیں یقین دلایا کہ وہ ہوس زدہ نیب چیئرمین کے خلاف کارروائی کریں گے، لیکن بعد میں یہ ویڈیو ایک ٹیلی ویژن چینل پر نشر کردی گئی۔ طیبہ گل نے وزیر اعظم آفس پر الزام لگایا کہ وہ اس ویڈیو کو جاوید اقبال پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرتا رہا حالانکہ عمران خان نے انہیں یقین دلایا تھا کہ ریاست مدینہ میں ایک نہتی خاتون کے ساتھ ایسا نازیبا سلوک کرنے والے کو نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ بطور چیئرمین نیب ریٹائرمنٹ کے باوجود جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال پچھلے بارہ برس سے لاپتہ افراد کے کمیشن کی سربراہی بھی کر رہے ہیں اور طیبہ گل بھی پہلی مرتبہ انہیں اس ہی کمیشن میں ملی تھیں۔ اس سے پہلے طیبہ گل نے قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش ہو کر جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے خلاف اپنی چارج شیٹ پیش کی تھی اور بتایا تھا کہ انھیں سابق چیئرمین نیب نے کس طرح ہراساں کیا۔ طیبہ گل نے یہ الزام بھی لگایا کہ جاوید اقبال کے ایما پر ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم نے انہیں اپنے دفتر بلا کر نہ صرف برہنہ کردیا بلکہ ان کی ویڈیو بھی بنائی جو بعد ازاں ان کے شوہر کو دکھا کر بلیک میل کیا جاتا رہا۔ اس چارج شیٹ کے بعد پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اور شہزاد سلیم دونوں کو طلب کر رکھا ہے۔

دوسری جانب طیبہ گل کی جانب سے ہراسگی کے سنگین الزامات پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں طلبی کے خلاف نیب لاہور کے ڈائریکٹر جنرل شہزاد سلیم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔ درخواست میں سیکریٹری قومی اسمبلی، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ونگ و دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اختیار سے تجاوز کرکے مجھے طلب کرنے کا نوٹس بھیجا، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے نوٹس کو کالعدم قرار دیا جائے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے متوازی پروسیڈنگز چلا کر اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان نے ذاتی مفاد کے لیے درخواست دلوائی ہو۔ دوسری جانب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے وزیراعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ جاوید اقبال کو ہراسانی کے جرم میں فوری طور پر لاپتہ افراد کمیشن کی سربراہی سے برخاست کیا جائے۔

Back to top button