بھارتی نائب صدر پر پاکستانی جاسوس ہونے کا الزام کیوں لگا؟
ایک پاکستانی صحافی کی جانب سے دس سال تک بھارت کے نائب صدر رہنے والے کانگرس کے رہنما حامد انصاری پر پاکستان کے لئے جاسوسی کرنے کے الزام کے بعد بھارتی سیاست میں ہلچل مچ گئی ہے۔ پاکستانی صحافی نصرت مرزا کے اس دعوے نے بھارت میں ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ایک دہائی قبل انڈیا کے سابق نائب صدر حامد انصاری نے انھیں مدعو کیا تھا اور انھوں نے بھارت سے حاصل کردہ معلومات پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی تک پہنچائی تھیں۔
ایک یوٹیوب انٹرویو میں کیے گئے اس دعوے کی بنیاد پر حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور ہندو دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا صارفین حامد انصاری کی حب الوطنی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ انھوں نے کانگریس پر بھی تنقید کی ہے جس کی قیادت نے حامد انصاری کو انڈیا کا نائب صدر بنایا تھا۔
دوسری جانب حامد انصاری اور کانگریس دونوں نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ یاد رہے کہ حامد انصاری 2007 سے 2017 تک انڈیا کے نائب صدر رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ اقوامِ متحدہ میں بھارت کے مستقل نمائندے بھی تھے۔ انھوں نے 38 سال تک خارجہ امور کی خدمات سر انجام دیں اور کئی غیر ممالک میں بھارت کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔
حامد انصاری دراصل ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے پوتے ہیں جو بھارت کی آزادی سے پہلے مسلم لیگ اور کانگریس کے صدر تھے۔ انصاری کے کزن بریگیڈیئر محمد عثمان ان انڈین فوجیوں میں سے ایک تھے جو تقسیم کے وقت انڈیا اور پاکستان کی جنگ میں مارے گئے تھے اور محاذ پر اُن کی بہادری کی وجہ سے انڈیا میں ’نوشیرا کا شیر‘ کہا جاتا ہے۔ تاہم حامد انصاری اس سے پہلے بھی دائیں بازو کی تنقید کا موضوع رہے ہیں۔پاکستانی صحافی نصرت مرزا نے ’دہ کریٹیکل پیٹریاٹ‘ نامی ایک یوٹیوب چینل پر شکیل چوہدری کو دیے گیے انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ سابق بھارتی نائب صدر حامد انصاری نے انھیں 2005 سے 2011 کے دوران پانچ مرتبہ دہلی بلایا اور باہمی گفتگو کے دوران انکے ساتھ خفیہ اور حساس معلومات شیئر کیں۔انھوں نے مزید دعویٰ کیا کہ انھوں نے حامد انصاری سے ملنے والی معلومات کو پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے شیئر کیا تھا۔
یاد رہے کہ انڈین حکومت عام طور پر پاکستانی شہریوں کو محدود شہروں یا مقامات کے لیے ہی ویزا جاری کرتی ہے لیکن جن دنوں نصرت مرزا انڈیا گئے تھے تب دونوں ممالک کے تعلقات بہتر تھے اور ایسی پابندی نہیں تھی۔ نصرت نے بتایا کہ انھیں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری نے سات شہروں کا ویزا دلانے میں مدد کی تھی جن میں سے وہ دہلی، بنگلور، چنئ، بنگلور، پٹنہ اور کلکتہ گئے اور مختلف لوگوں سے ملاقات کی۔ نصرت کے ان دعوؤں کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی نے حامد انصاری اور کانگریس پارٹی پر شدید تنقید کی۔
بی جے پی کے ترجمان گورو بھاٹیہ نے کہا کہ ’لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا کانگریس حکومت کی دہشت گردی کو ختم کرنے کی یہی پالیسی تھی؟ کانگریس خفیہ چیزیں دوسرے ممالک کے ساتھ شیئر کر رہی تھی، جنہیں وہ دہشت گردی کے لیے استعمال کر رہے تھے اور اسی لیے آج بھارت کے عوام پریشان ہیں۔‘ کانگریس قائدین سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کو نشانہ بناتے ہوئے بھاٹیہ نے پوچھا کہ کیا انصاری نے سونیا اور راہول کے کہنے پر کسی پاکستانی صحافی کو مدعو کیا تھا؟
بی جے پی کے دوسرے رہنما اور دائیں بازو کے صارفین نے بھی سولات اٹھائے ہیں۔ بی جے پی لیڈر بیجینت پانڈا نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’ایک پاکستانی صحافی کے اس دعوے کے بارے میں پڑھ کر حیرت ہوتی ہے جس میں ہمارے سابق نائب صدر حامد انصاری شامل ہیں۔ اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ کانگریس کے دور حکومت میں انھیں دوسری بار نائب صدر کی کرسی ملی۔ کیا اس عرصے کے دوران اعلیٰ عہدوں پر سمجھوتہ کیا گیا؟ اس سے کچھ سنگین شکوک پیدا ہوتے ہیں۔‘
دوسری جانب حامد انصاری نے ان الزامات کے جواب میں ایک بیان جاری کیا جس میں انھوں نے انکی تردید کی ہے۔خود پر لگے والے الزام کو مسترد کرتے ہوئے انھوں کہا کہ انڈیا کے سفیر کے طور پر انھوں نے جو کام کیا ہے اسے عالمی اور ملکی سطح پر سراہا گیا ہے۔ انصاری نے کہا کہ الزام لگایا گیا کہ میں نے انڈیا کا نائب صدر ہوتے ہوئے پاکستانی صحافی نصرت مرزا کو مدعو کیا۔ کہا گیا کہ میں ان سے دہلی میں دہشت گردی پر ایک کانفرنس میں ملا تھا اور ایران میں انڈیا کے سفیر کی حیثیت سے قومی مفادات سے غداری کی تھی۔ یہ الزامات حکومت ہند کی ایجنسی کے ایک سابق افسر نے لگائے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک حقیقت ہے کہ نائب صدر غیر ملکی معززین کو حکومت اور وزارت خارجہ کے مشورے پر مدعو کرتے ہیں۔ میں نے 11 دسمبر 2010 کو دہشت گردی پر کانفرنس کا افتتاح کیا۔ عام طریقہ کار کے مطابق منتظمین نے اس کانفرنس میں مدعو کرنے والوں کی فہرست بنائی ہو گی۔ نہ میں نے نصرت مرزا کو مدعو کیا تھا اور نہ ہی میں ان سے ملا تھا۔‘
کانگریس نے بھی بی جے پی کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ سونیا گاندھی اور انڈیا کے سابق نائب صدر اور نامور سفارت کار حامد انصاری پر لگائے گئے الزامات کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے۔
یاد رہے کہ حامد انصاری اور وزیر اعظم نریندر مودی کے مابین اختلافات زبان زد عام رہے ہیں۔ حامد انصاری نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ وزیر اعظم نریندر مودی ان کے راجیہ سبھا کے دفتر میں آئے اور ان سے کہا کہ آپ سے اعلیٰ ذمہ داریوں کی توقعات ہیں لیکن آپ میری مدد نہیں کر رہے۔
دونوں کے درمیان اختلافات انتخابی مہم میں بھی نظر آئے۔ دسمبر 2017 میں گجرات اسمبلی کے انتخابات سے پہلے مودی نے پاکستان پر انتخابات میں مداخلت کا الزام لگایا تھا اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اور انصاری کے بارے میں کہا تھا کہ وہ کانگریس لیڈر منی شنکر ائیر کی رہائش گاہ پر ایک ‘خفیہ میٹنگ’ کا حصہ تھے جس میں کچھ پاکستانی اہلکار موجود تھے۔ مودی کے اس بیانیہ کی وجہ سے تب پارلیمنٹ میں ہنگامہ بھی ہوا۔
حامد انصاری کی بطور نائب صدر الوداعی تقریب میں بھی مودی نے انصاری پر طنزیہ جملہ کسا تھا اور مسلم ممالک میں انکی بطور سفیر پوسٹنگ کی بات کی تھی۔