تحریک انصاف کی سیاست بند گلی میں کیسے پہنچی؟

نو مئی کو فوجی تنصیبات پر ہونے والے حملوں کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے مابین پیدا ہونے والی تلخیوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ مبصرین کے مطابق نا تو فوج کا غصہ کم ہوا اور نہ ہی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے مبین فاصلے کم ہوئے ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری کی پریس کانفرنس کے بعد کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ فوج کے غصے میں ابھی کوئی کمی نہیں آئی۔ پاک فوج چاہتی ہے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو سزا ملے کیونکہ ان کے نزدیک پچھلے سال نو مئی کو ہونے والے واقعات فوج کے خلاف سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھے۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کا موقف ہے کہ پی ٹی آئی قیادت اور کارکنان کو ایک فالس فلیگ آپریشن کے ذریعےان شرپسندانہ واقعات کی آڑ میں جان بوجھ کر جعلی مقدمات میں ملوث کیا گیا۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کے مطابق ان واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا غائب ہو جانا، مظاہرین کے راستوں پر پولیس کا موجود نا ہونا اور اہم مقامات کی سکیورٹی ہٹا لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ صورتحال ویسی نہیں، جیسی عوام کو بتائی جا رہی ہے۔
دوسری جانب سانحہ 9 مئی کو ایک سال گزرنے کے حوالے سے تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ یہ سال کئی حوالوں سے غیر معمولی تھا، ”اس سال ہم نے وہ واقعات بھی دیکھے، جو اس سے پہلے ملکی سیاسی تاریخ میں نہیں دیکھے تھے۔‘‘ ان کے بقول فوجی تنصیبات پر حملہ اپنی نوعیت کا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ اس واقعے کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی طرف سے جو ردعمل دیکھنے کو ملا وہ بھی بہت شدید نوعیت کا تھا۔
مظہر عباس کی رائے میں اس وقت اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی میں تلخیاں شدت اختیار کر چکی ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ان میں مصالحت کے لیے ہونے والی خفیہ بات چیت کی افواہیں بھی دم توڑ چکی ہیں، لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی پی ٹی آئی کی مشکلات کم نہیں ہو سکیں گی۔ ان کے خیال میں اصلاح احوال کے لیے سب کو ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا، خاص طور پر پی ٹی آئی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے پاس آپشنز اب محدود رہ گئے ہیں، ”اگر وہ سیاست دانوں کے ساتھ بھی بات چیت پر آمادہ نہیں ہوتی تو اس کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ ابھی جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے اسلام ف بھی ان کے اتحاد میں شامل ہونے سے گریزاں ہیں۔ اس لیے پی ٹی آئی کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
دوسری طرف تجزیہ کار سلمان عابد کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو توڑنا آسان نہیں ہے ۔ ان کی رائے میں کسی سیاسی جماعت کو طاقت سے نہیں کچلا جا سکتا ماضی میں پیپلز پارٹی سمیت کئی جماعتوں کو ختم کرنے کی کوششیں ناکام ہوئی ہیں، ”اس لیے سارے اسٹیک ہولڈرز آپس میں بات چیت کرکے ہی اس بحران سے نکل سکتے ہیں وگرنہ موجودہ تناؤ کی ملک کے لیے درست نہیں ہے۔‘‘