جنرل اور لیڈر کیلئے یو ٹرن بہت ضروری ہوتا ہے

چیئرمین تحریک انصاف وسابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہےکہہم کمزور فوج کے متحمل نہیں ہوسکتے، فوج ہمارا اثاثہ ہے، جنرل اور لیڈر کیلئے یو ٹرن بہت ضروری ہوتا ہے، غلطیاں ہوسکتی ہیں، آپ کو پتا ہے کہ غلطی ہوگئی تو واپس ہوجائیں۔

اسلام آباد میں سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے جمہوریت کے لیے اظہار رائے کی آزادی ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اپنی اسٹبلشمنٹ اور فوج کو بچانے کے لیے تعمیری تنقید ضروری ہے۔

انکا کہنا تھاجب برطانیہ پر ہٹلر حملہ آور تھا تو چرچل کے پاس لوگ گئے اور پوچھا کہ کیا ہمارا ملک بچ جائے گا تو اس نے بجائے یہ کہنے کہ ہماری فوج کتنی تگڑی ہے جواب دیا کہ اگر ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو ہم کبھی تباہ نہیں ہوسکتے،دوسرا ان کی اخلاقیات اور قیادت کی اخلاقیات بڑے معیار کی ہیں جو میں نے پاکستان کے اندر نہیں دیکھی،تیسرا اظہار رائے کی آزادی ہے، ہائیڈ پارک میں اتوار کو جا کر کوئی بھی جو مرضی بولنا چاہتا تھا کہتا تھا لیکن عوامی سطح پر کسی کی کردار کشی پر بہت سخت قوانین ہیں اور میں نے بوتھم اور ایلن لیمب کے خلاف عدالت میں مقدمہ لڑا تھا،اس حوالے سے وہاں اتنے سخت معیار ہیں کہ اگر آپ کسی کی توہین کرتے ہیں تو ایک انسان کو اپنی عزت کے تحفظ کے لیے جو حق وہ پاکستان میں کبھی نہیں دیکھا۔

سابق وزیر اعظم نے کہاانگریز جب یہاں سے واپس گیا تھا تو اس وقت بھی ہمارا اخلاقی معیار کافی بلند تھا لیکن آہستہ آہستہ نیچے چلی گئی، اس کی اصل وجہ قانون کی بالادستی نہ ہونا ہے،پاکستان میں قانون کی بالادستی اس لیے نہیں ہے کہ فوج آمروں نے 64 سال میں آدھا فوج آمروں نے حکومت کی اور آدھا ان دو خاندانوں نے حکومت کی ہے لیکن ان دونوں کے دور میں قانون کی بالادستی نہیں ہوئی،جب ایک فوجی آمر ملک کو سنبھالتا ہے تو وہ خود بخود قانون توڑ دیتا ہے اور خود کو قانون سے بالا تر رکھتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ میڈیا کو کنٹرول کرے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے میڈیا پر پابندیوں سے متعلق بات کرتے ہوئے کہامیں نے اپنے دور میں سوائے نجم سیٹھی کے خلاف ایک کیس کے کسی میڈیا پر کارروائی نہیں کی، نجم سیٹھی نے میری ذات پر حملہ کیا تھا اس لیے عدالت میں گیا،تین چار مرتبہ کابینہ اجلاس میں بیٹھے تھے تو پتہ چلا کہ کسی صحافی کو اٹھا لیا گیا ہے، کسی کو بھی میرے احکامات پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور تھیں، میرا مسئلہ یہ تھا کہ جعلی خبریں آتی تھیں، میرے وزرا کے بارے میں جھوٹی خبریں آئیں تو میں نے انہیں وٹس ایپ کیا کہ اپنا دفاع کرو لیکن وہ جھوٹی خبریں تھیں اور دو وزرا نے لندن میں جا کر مقدمہ کیا اور جیت کر آئے لیکن یہاں کچھ نہیں ہوا،ایک اور عنصر سوشل میڈیا آچکا ہے جہاں کئی مرتبہ غلیظ چیزیں آرہی تھیں، دراصل دنیا بھر میں یہ مسئلہ ہے اور بحث جاری ہے کہ اس سے کیسے نمٹنا ہے،جھوٹی خبروں سے متعلق چیک اینڈ بیلنس ہوناچاہیے۔

عمران خان نے کہا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہوئے تو سماجی مسائل پیدا ہوئے اور عافیہ صدیقی کو اٹھایا گیا اور لاپتہ افراد کا مسئلہ سامنے آیا جس کے لیے 2003 میں سب سے پہلے مظاہرہ میں نے کیا تھا، جب تک میں حکومت میں نہیں آیا اس وقت تک فوج کا نکتہ نظر معلوم نہیں تھا اس لیے اس کے خلاف بولتا رہا کیوںکہ جن کے رشتہ دار اٹھا لیے جاتے تھے تو وہ میرے پاس آتے تھے جو دردناک کہانیاں تھیں۔

انکا کہنا تھاہمارے دور میں لوگوں کو اٹھالیا جاتا تو قومی سلامتی کمیٹی میں آتا تھا اور میں نے جب جنرل فیض ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ سے اس حوالے سے بات کی اور انہوں نے کئی لوگوں کو چھوڑا، وہ کہتے تھے کہ عدالت میں مسئلہ آتا ہے کیونکہ ایک دہشت گرد کو عدالت لے کر جاتے ہیں تو ثابت کرنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے کہ ثبوت کہاں سے آتے ہیں، پھر امریکا اور انگلینڈ کی مثال دی جاتی تھی، دہشت گردی ایسی چیز ہے کہ عدالتوں میں ان کو ثابت کرنا مشکل پڑ رہا تھا اور فوج ڈرتی تھی کہ آپ ان کو پھر چھوڑ دیں گے اور وہ دوبارہ ہمارے خلاف سرگرمیاں شروع کردیں گے، اس پر بھی ہم ایک نتیجے پر پہنچے تھے اور منظور کرنے لگے تھے کہ کسی بھی لاپتہ فرد کے بارے میں وقت دیں لیکن رشتہ داروں کو تو پتہ ہو لیکن یہ ان کا نکتہ نظر تھا۔

سابق وزیر اعظم نے کہا پاکستان میں طاقت ور فوج ایک بڑا اثاثہ ہے، اس کو ہمیں بچانا ہے کیونکہ گر عوام اور فوج کے درمیان فاصلے بڑھتے ہیں جو بڑھ رہے ہیں تو اس سے فوج اور پاکستان کونقصان ہے،ہماری اسٹبلشمنٹ کو تفریق کرنا چاہیے کہ کب آپ تعمیری تنقید کر رہے ہیں اور کب نقصان پہنچا رہے ہیں، جب ایک اسٹبلشمنٹ کی مداخلت یہ ہوتی ہے کہ صحافیوں کو پکڑ رہے ہیں اور جب سمجھیں فوج پر تھوڑی تنقید ہوئی ہے تو کارروائی کی تو اس سے فوج کو نقصان پہنچے گا، اس سے فائدہ نہیں ہوگا اور معلومات رک نہیں سکتیں۔

انہوں نے حکومت کی تبدیلی پر بات کرتے ہوئے کہا کوئی یہ سوال پوچھے کہ واضح طور پر بند کمرے میں جو بھی فیصلہ ہوا ہے اور حمایت کرنے گئے ہیں کیا یہ پاکستان کا فائدہ ہے،ایک کرپٹ حکومت کی حمایت کرنے سے کتنا نقصان ہو رہا ہے کیا اسٹبلشمنٹ کو نظر نہیں آرہا ہے اور کیا یہ ٹھیک کام کر رہے ہیں، کس نے فیصلہ کیا، بند کمروں میں پلان اے بنتا ہے، پلان بی بھی بند کمروں میں بنتا ہے۔

انکا کہنا تھا دنیا کی دو طاقت ور ترین فوجیں 1941 میں ہٹلر اور دوسری نپولین کی تھی اور دونوں فوجیں روس کے اندر تباہ ہوگئیں کیونکہ جب وہ حملہ کر رہے تھے تو روس میں سردیاں آرہی تھیں لیکن جنرلز نے ان کو بڑا سمجھایا تھا لیکن وہ مانے نہیں حالانکہ اس وقت یوٹرن لینا چاہیے تھا اور یوٹرن جنرلز اور لیڈرز کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں،کسی بھی لیڈر کو عقل کل نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ غلطی ہوتی ہے، بہتر ہوتا ہے غلطی جان کر واپس آجائیں اور دونوں بڑی فوجیں روس میں تباہ ہوگئیں۔

عمران خان نے کہا ساری قوم اسٹبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہی ہے کیونکہ طاقت ان کے پاس ہے، اپنی اسٹبلشمنٹ اور فوج کو بچانے کے لیے تعمیری تنقید ضروری ہے، ہمارے صحافیوں کو موقع دیا جائے، غلطی سب سے ہوتی ہیں،شفاف انتخابات کے علاوہ پاکستان کے پاس دوسرا راستہ نہیں ہے، دوسرے راستوں میں مسئلے ہی مسئلے ہیں، ناکامی کو مسلط کریں گے تو قوم اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان مزید فاصلے بڑھتے جائیں گے، مارشل لا کا دور گزر چکا ہے اور جمہوریت مضبوط ہونی چاہیے۔

Back to top button