ساڑھے دس بجے کیا ہوا تھا؟

تحریر:جاوید چودھری، بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس

ہفتہ 9 اپریل کو پوری قوم سارا دن ٹیلی ویژن اسکرینوں سے جڑ کر بیٹھی رہی اور حکومت وقت پر وقت گین کرتی رہی ‘ 8 اپریل کی رات اطلاع آئی حکومت کل عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں کرائے گی‘ یہ لوگ لمبی لمبی تقریریں کریں‘ گے‘ اپوزیشن کو اشتعال دلائیں گے اور پھر اجلاس اگلے دن کے لیے ملتوی کر دیں گے‘ یہ لوگ صورت حال کو چند دن مزید اسی طرح کھینچیں گے۔
میں نے یہ اطلاعات ملنے کے بعد وزیراعظم کے ایک معاون خصوصی سے رابطہ کیا‘ وہ ہنس کر بولے ’’وزیراعظم کو یقین ہے پہاڑوں سے کمک آئے گی اور بازی پلٹ جائے گی‘‘ میرے پاس بھی ہنسنے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا‘ بے شک عزت اور ذلت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ نے یہ فیصلہ کر لیا تھا عمران خان عزت کے ساتھ اقتدار سے رخصت نہیں ہوگا‘ بہرحال نو اپریل کا دن شروع ہوا‘ اجلاس بار بار ملتوی ہوتا رہا۔
حکومت دھواں دار تقریریں کرتی رہی‘ اپوزیشن پورے اطمینان سے یہ رطب ویاسب سنتی رہی اور قوم بے زاری کے عالم میں ٹیلی ویژن اسکرینیں دیکھتی رہی‘ یہ سلسلہ رات آٹھ بجے تک چلتا رہا‘ پھر اچانک خبر آئی وزیراعظم نے کابینہ کی ایمرجنسی میٹنگ بلا لی ہے‘ خبر آنے کی دیر تھی‘ پوری میڈیا انڈسٹری میں سنسنی پھیل گئی اور صحافی سیٹ بیلٹ باندھ کر کپتان کے آخری سرپرائز کا انتظار کرنے لگے‘ ہمارا خیال تھا یہ وہ نوٹی فکیشن جاری کر دے گا جس کو کارڈ بنا کر حکومت اب تک کھیلتی رہی ہے۔
وزیراعظم نے اسی دوران اپنی پسند کے صحافیوں کو پی ایم ہاؤس بلا لیا‘ یہ دوسری سنسنی خیز خبر تھی‘ بہرحال ساڑھے نو بجے کابینہ کا مختصر اجلاس ہوا اور وزراء کی اکثریت قومی اسمبلی اور اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئی‘ میڈیا پرسنز وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو انھیں وزیراعظم کے رہائشی علاقے کے پیچھے لان میں لے جایا گیا‘ شاہ محمود قریشی‘ شفقت محمود‘ علی زیدی‘ فواد چوہدری اور فرخ حبیب بھی وہاں موجود تھے‘ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کرسیوں سے دور کھڑے سرگوشیوں میں بات کر رہے تھے‘سرگوشیاں ختم ہوئیں تو وزیراعظم کرسیوں کی طرف آئے اور صحافیوں سے بات چیت شروع کر دی۔
عمران خان حسب معمول فل اسپرٹ میں تھے‘ ان کا کہنا تھا‘ ہم نے امریکا کے خط کو ’’پارشلی ڈی کلاسیفائی‘‘ کر دیا ہے‘ صحافیوں نے پوچھا ’’اس کا کیا فائدہ ہو گا؟‘‘ وزیراعظم نے جواب دیا‘ ہم یہ خط چیئرمین سینیٹ‘ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوا رہے ہیں تاکہ یہ ریکارڈ کا حصہ بن جائے اور مستقبل میں کوئی اسے ٹمپرڈ نہ کر سکے‘ صحافیوں نے پوچھا ’’آپ اب کرنا کیا چاہتے ہیں؟‘‘ وزیراعظم کا جواب تھا ’’سپریم کورٹ نے اجلاس بلانے کا حکم دیا تھا‘ ہم نے اجلاس بلا لیا‘ اسپیکر اب اجلاس منسوخ نہیں کر سکتا لیکن یہ اسے ایڈجرن (ملتوی) کر سکتا ہے۔

یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے‘ میں نے اتوار کی رات احتجاج کی کال دے دی ہے‘ ہمیں عوام کی طرف سے شان دار ریسپانس مل رہا ہے‘ کل رات جب پورا ملک باہر نکلے گا تو صورت حال بدل جائے گی‘‘ ایک صحافی نے کہا ’’سپریم کورٹ نے آپ کی نظرثانی درخواست قبول نہیں کی‘ آپ کے پاس اب کوئی قانونی آپشن نہیں بچا‘‘ وزیراعظم نے حیرت سے پوچھا ’’کیا سپریم کورٹ ہماری نظرثانی درخواست نہیں سن رہی؟‘‘ صحافیوں کو محسوس ہوا وزیراعظم کو اس خبر سے بے خبر رکھا گیا تھا لہٰذا وزیراعظم سمیت تمام وزراء مطمئن اور خوش دکھائی دے رہے تھے صرف شاہ محمود قریشی اور شفقت محمود متفکر تھے‘ یہ دونوں آنے والے دنوں کی سختیوں سے واقف تھے جب کہ علی زیدی حسب معمول اپنے بالوں کو جھٹک رہے تھے۔
ان میں ہاتھ پھیر رہے تھے اور قوالوں کی طرح گردن ہلا رہے تھے‘یہ حالات اور گفتگو سن کر صحافیوں کا متفقہ خیال تھا حکومت عدم اعتماد پر آج ووٹنگ نہیں کرائے گی اور یہ گند چند دن مزید جاری رہے گا یوں محسوس ہوتا تھا گیم ابھی عمران خان کے ہاتھ میں ہے‘ وزیراعظم بار بار یہ بھی کہہ رہے تھے میں ہار نہیں مانتا‘ میں آخری گیند تک لڑوں گا یہ اسپرٹ چلتی رہی لیکن پھر اس صورت حال میں پہلی تبدیلی آئی‘ وزیراعظم کے اسٹاف کا ایک افسر آیا اور اس نے وزیراعظم سے ہاؤس کے اندر چلنے کی درخواست کی‘ عمران خان نے جواب دیا ’’میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں‘‘ افسر چلا گیا لیکن دس منٹ بعد دوبارہ آ گیا اور وزیراعظم کو ایک بار پھر پیغام دیا گیا‘ وزیراعظم اٹھ گئے اور صحافیوں سے کھڑے کھڑے چند باتیں کیں اور پھر اندر چلے گئے۔
وزراء بھی ان کے ساتھ ہاؤس کے اندر آ گئے‘ صحافیوں نے موبائل لیے اور اپنے اپنے چینل کو بیپر دینے لگے‘ وزیراعظم اس دوران اپنے آفس میں تھے جب کہ وزراء کوریڈورز میں چہل قدمی کر رہے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ کر رہے تھے‘ میڈیا پرسنز میں سے ایک صحافی ساڑھے دس بجے بیپر دے کر وزیراعظم ہاؤس کے اندر گیا تو اس نے دیکھا تمام وزراء غائب ہیں اور وزیراعظم ہاؤس بھائیں بھائیں کر رہا ہے‘ وہ مختلف کمروں میں گیا‘ دوتین کوریڈورز کا چکر لگایا لیکن قہقہے لگانے اور ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارنے والے تمام لوگ غائب ہو چکے تھے‘ وہ گھبرا گیا اور وزیراعظم ہاؤس سے باہر آ گیا تاہم اس نے اس دوران پرویز خٹک اور اسپیکر اسد قیصر کو پی ایم ہاؤس کی بلڈنگ میں داخل ہوتے دیکھا۔
میڈیا پرسنز واپس آئے تو صورت حال یکسر بدل چکی تھی‘ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کھل چکی تھی‘ ریڈ زون میں کمانڈوز تعینات تھے‘ جیل کی گاڑی اور ایمبولینس بھی آ چکی تھی اور ٹیلی ویژن اسکرینیں بھی شعلے اگل رہی تھیں‘ یہ لوگ پریشان ہو گئے۔
کیوں؟ کیوں کہ وزیراعظم آدھ گھنٹہ پہلے تک فل اسپرٹ میں تھے اور کسی قسم کی تبدیلی کا کوئی اندیشہ نہیںتھا جب کہ باہر کی صورت حال بالکل مختلف تھی چناں چہ یہ اپنے ساتھیوں کو سمجھانے لگے ’’آپ کیا بے وقوفی کر رہے ہیں؟آج رات ووٹنگ نہیں ہوگی‘ وزیراعظم اب بھی گیند ہاتھ میں لے کر اسٹیڈیم میں کھڑا ہے‘‘ تجزیہ کار بھی پریشان ہو گئے کیوں کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا کھلنا‘ ریڈ الرٹ‘ جیل کی گاڑی اور ایمبولینسز مختلف کہانی سنا رہی تھیں اور وزیراعظم سے مل کر آنے والے نئی صورت حال کا دعویٰ کر رہے تھے بہرحال قصہ مختصر سوا گیارہ سے ساڑھے گیارہ بجے کے درمیان اسد قیصر اور پرویز خٹک پریشانی کے عالم میں قومی اسمبلی پہنچے اور ملک کے دبنگ اور بے خوف رپورٹر اعزاز علی سید کو گالی دے کر چیمبر میں چلے گئے لیکن اسد قیصر کے اسمبلی پہنچنے سے پہلے ان کے استعفے کی خبر آ چکی تھی۔
یہ خبر میڈیا کو کس نے دی یہ تاحال پتا نہیں چل سکا‘ قصہ مزید مختصراسد قیصر نے استعفیٰ دیا‘ چیئر ایاز صادق کے حوالے کی اور پھر ایوان نے چالیس منٹ میں وزیراعظم کو سابق وزیراعظم ڈکلیئر کر دیا یوں ملک کا مشکل ترین دور ختم ہو گیا لیکن یہ دور جاتے جاتے یہ سوال پیچھے چھوڑ گیا رات ساڑھے دس بجے کیا ہوا تھا؟ بی بی سی اردو کے رپورٹر آصف فاروقی نے دعویٰ کیا رات دس بجے ہیلی کاپٹر پر دو افسر آئے اور اس کے بعد صورت حال بدل گئی‘یہ خبر بھی آئی وزیراعظم نے رات ساڑھے دس بجے آخری بال کھیلنے سے انکار کر دیا اور اسد قیصر نے وہیں بیٹھے بیٹھے مستعفیٰ ہونے اور چیئر ایاز صادق کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ آئی ایس پی آر نے بی بی سی خبر کی تردید کر دی لہٰذا یہ وجہ نہیں ہو سکتی۔
یہ افواہ بھی گردش کرتی رہی پرویز خٹک نے سیکریٹری ڈیفنس کو سمری تیار کرنے کاحکم دیا تھا اور وہ سمری سمیت غائب ہو گیا تھا لیکن یہ خبر بھی بعدازاں غلط نکلی‘ یہ افواہ بھی گردش کرتی رہی وزیراعظم آخری سرپرائز کے لیے پرتول رہے تھے لیکن پھر انھیں بتایا گیا اسلام آباد ہائی کورٹ کھل چکی ہے‘ آپ کا آرڈر فوری طور پر منسوخ بھی ہو جائے گا اور آپ اور آپ کے ساتھیوں کے خلاف آرٹیکل چھ کا اطلاق بھی ہو جائے گا لیکن یہ خبر بھی غلط تھی اور یہ اطلاع بھی آئی وزیراعظم ہاؤس میں ہیلی کاپٹر آئے بھی تھے اور یہ واپس بھی گئے تھے لیکن بعدازاں پتا چلا یہ وزیراعظم کا ہیلی کاپٹر تھا اور یہ شاید واپس بنی گالا گیا تھا اور یہ اطلاع بھی آئی وزیراعظم نے ایک سینئر افسر کو وزیراعظم ہاؤس بلایا تھا لیکن وہ نہیں آئے اور یوں بازی پلٹ گئی۔
یہ تمام اطلاعات غلط تھیں لیکن اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے وہ وزیراعظم جو دس بجے تک مزید تین چار دن اجلاس چلانے‘ امریکی خط پر بحث کرانے اور آخری گیند تک کھیلنے کا دعویٰ کر رہا تھا وہ ساڑھے دس بجے ایک سو اسی ڈگری پر کیسے مڑ گیا؟ عمران خان کو جاننے والے جانتے ہیں یہ چیزوں کو چھپانے کی صلاحیت نہیں رکھتے لہٰذا اگرانھیں یہ معلوم ہوتا ایک گھنٹے بعد اسد قیصر مستعفی ہو جائیں گے اور ایاز صادق تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرا دیں گے تو یہ وہ سچ صحافیوں سے نہ چھپا سکتے۔
آپ خود سوچیے جو شخص سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست قبول نہ ہونے پر چونک گیا تھا یا جو قوم سے خطاب کے دوران امریکا کا نام نہیں چھپا سکا تھا وہ اسد قیصر کے استعفے کی خبرکیسے پوشیدہ رکھ سکتا تھا چناں چہ ان کی پریشانی ان کے چہرے پر آ جاتی لیکن یہ لان سے وزیراعظم ہاؤس کے اندر جانے تک مطمئن تھے مگر پھر آدھ گھنٹے بعد صورت حال یکسر بدل گئی۔
وفاقی وزراء غائب ہو گئے اور اسد قیصر اور پرویز خٹک پریشانی میں قومی اسمبلی پہنچ گئے جب کہ وزیراعظم شاید بنی گالا چلے گئے‘ ساڑھے دس بجے آخر ہوا کیا تھا؟ کوئی نہیں جانتا شاید موکلات وزیراعظم کو ساتھ لے گئے ہوں اور جاتے جاتے سب کچھ بدل گئے ہوں؟ مجھے بہرحال یہ موکلات کی کارستانی لگتی ہے‘عمران خان آخری وقت میں قومی اسمبلی جانا چاہتے تھے اور فلور پر کھڑے ہو کر تقریر بھی کرنا چاہتے تھے لیکن موکلات نے انھیں اس سے بھی روک دیا لہٰذا موکلات زندہ باد۔

Back to top button