سچ، جھوٹ اور بیانیہ

تحریر:حماد غزنوی، بشکریہ : روزنامہ جنگ

نہ کوئی پارٹی منشور، نہ کوئی نعرہ، نہ کوئی بحث نہ دلیل، یہ چیزیں غالباً متروک قرار پائی ہیں۔ ہم ’بیانیے‘ کے عہد میں زندہ ہیں، اور اس اصطلاح نے کسی بلیک ہول کی طرح منشور سے دلیل تک سب کچھ ہڑپ کر لیا ہے ۔ایک زمانے تک تو ’بیانیہ‘ ادب کی ایک اصطلاح تھی جس سے مراد واقعات کو کہانی کی صورت میں ترتیب سے بیان کرنا ہوا کرتا تھا۔ پھر یہ اصطلاح سیاست میں در آئی، اور اس کا مطلب یہ ٹھہرا کہ ’’ایسی کہانی جو سیاسی حقائق کی تشکیل کرنے پر قادر ہو‘‘۔ دوسرے لفظوں میں’ بیانیہ‘ کی فصل سچ اور جھوٹ کی سرحد پر اُگتی ہے۔ (اس سے پہلے کہ بات اور خشک ہو جائے، تھیوری سے آگے بڑھتے ہیں)

آپ کچھ ماہ سے دیکھ رہے ہوں گے کہ مسلم لیگ ن کو یہ طعنہ دیا جاتا رہا ہے کہ ’ ووٹ کو عزت دوکی تدفین کے بعد اب اس جماعت کا بیانیہ کیا ہے۔‘ یعنی یہ جماعت تو پچھلے انتخابات تک سیاست میں مقتدرہ کی چھیڑخانی کی مخالف ہوا کرتی تھی اورعمران خان کو خاکی کاندھوں کا سوار قرار دے کرتضحیک کے چابک برسایا کرتی تھی۔اور آج جب کہ صورتِ احوال اس کے برعکس ہو چکی ہے، اب یہ جماعت کیا بیچتی ہے؟ مسلم لیگ ن کو بھی اس خلا کا احساس تھا، اور شاید اسی لیے اس جماعت نے الیکشن 2024 کی تیاری میں پہلی دفعہ ایک Narrative Committee بھی تشکیل دی تھی، اور یہ کمیٹی منشور کمیٹی کے قیام سے بھی پہلے قائم کی گئی تھی۔

آگے بڑھنے سے پہلے اس کالم کی شانِ نزول عرض کرنا ضروری ہے۔ مسلم لیگ نواز کا ایک الیکشن اشتہار دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس میں نواز شریف کی پاکستان واپسی پر پہلی تقریر سے چند جملے وائس اوور کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں، میاں صاحب فرماتے ہیں کہ یہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کا بیانیہ کیا ہے، اور پھر اشتہار میں نواز شریف کے بنائے ہوئے ترقیاتی منصوبوں کی فہرست موٹر ویز سے بجلی کے کارخانوں تک دکھائی جاتی ہے۔ تو اس اشتہارسے کیا سمجھا جائے کہ بڑے میاں صاحب کا بیانیہ بھی اب وہی ہے جو 2018 ءمیں چھوٹے میاں صاحب کا تھا، یعنی ’خدمت کو عزت دو‘ ؟بہرحال، ترقیاتی منصوبے کسی سیاسی جماعت کے بیانیے کا حصہ تو ہو سکتے ہیں، لیکن مکمل بیانیہ نہیں۔ بیانیے میں ایک ترفع کا پہلو ناگزیر ہے، بیانیہ خواب دِکھاتا ہے، بیانیہ سحرناک فضا تخلیق کرتا ہے، یوں کہہ لیجیے کہ بیانیہ خون کی گردش تیز کرتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر، بیانیہ کو ایک سادہ اور عام فہم نعرے میں ڈھلنا ہوتا ہے۔ امریکا میں 2008 کے الیکشن میںاوباما کا نعرہ Change یا 2016 میں ٹرمپ کا نعرہ Make America Great Again اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ پاکستان میں 2018 ء کے الیکشن میں نواز شریف کا بیانیہ تاب ناک تھا، خوش قسمتی سے اس بیانیے کو موزوں قالب بھی میسر آ گیا، یعنی ووٹ کو عزت دو۔ بیانیہ سادہ تھا، سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی ناروا مداخلت اس ملک کے ہر مسئلے کی جڑ ہے۔کچھ شواہد بھی موجود تھے، اور جملہ بیماریوں کاسیدھا سا حل بھی موجود تھا لہٰذا عوام کے ایک بڑے حصے کو یہ بیانیہ سچا اور اچھا لگا ، اور اتنا اچھا لگا کہ مسلم لیگ نون کو ہرانے کے لیے پری پول رگنگ کافی نہ رہی اور کمپنی کو الیکشن والے دن بھی پولنگ ایجنٹ نکالنے اور آر ٹی ایس بٹھانے جیسی فحش حرکات میں ملوث ہونا پڑا۔دوسری طرف بانی خان بیانیہ بنانے کے امام سمجھے جاتے ہیں، بلکہ یوں کہیے کہ بانی خان تو خود بیانیے کی پیداوار ہیں۔ بانی کو ایک بنا بنایا بیانیہ تھمایا گیا تھا، یعنی سیاست دان کرپٹ ہوتے ہیں، میں ایمان دار ہوں، میں سیاست دان نہیں ہوں، باقی سب کو موقعے ملے ہیں مجھے بھی ملنا چاہیے، میں لوٹے ہوئے 200 ارب ڈالر ملک میں واپس لائوں گا، پاکستان کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اور نعرہ لگایا گیا ’تبدیلی‘ اور ’نیا پاکستان‘۔ کامیاب بیانیہ بنانے کے اعتبار سے سب عناصر پورے تھے۔پھر الیکشن 2013کے بعد ’چار حلقے کھول دو‘ کا بیانیہ تخلیق کیا گیا جو انتخابات کی شفافیت کو گدلانے کا بہترین نسخہ تھا۔ اپنی حکومت ختم ہونے سے پہلے آخری ہفتے بانی صاحب نے پانچ مرتبہ آئین توڑا، اور حکومت سے نکلتے ہی حقیقی آزادی، ہم کوئی غلام ہیں، سائفر، Absolutely Not اور امپورٹڈ حکومت جیسی تراکیب سے کم از کم اپنے حامیوں کے لیے ایک ایسا موثر بیانیہ ترتیب دیا کہ ان کی آئین شکنی پس منظر میں چلی گئی۔اب آ جائیے لمحہء موجود میں، بات یہ ہے کہ سیاسی لیڈر کا جیل میں ہونا بہ ذاتِ خود ایک مکمل بیانیہ ہوتا ہے، جیسے کہ 2018 میں نواز شریف کا تھا، اس وقت وہی سہولت بانی صاحب کو میسر ہے۔ ویسے پہلی مرتبہ ہے کہ بانی اپنے بیانیے کو کسی نعرے میں نہیں سمو سکا، جیسے نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو میں سمیٹا تھا۔ خاص طور پر موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کو ایک نعرے کی ضرورت تھی جو اس کے تمام امیدوار اپنی کمپین کا حصہ بنا کر ’بلّے‘ کی کمی پوری کر سکتے تھے۔

بہرحال،بیانیہ سچ ہے یا جھوٹ، آج کی سیاست میں یہ ایک غیر اہم سوال ہے، اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ بیانیہ پھیلانے کے لیے کسی پارٹی کے پاس کتنا موثر نیٹ ورک موجود ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ نون اس میدان میں پی ٹی آئی سے بس کچھ ہی نوری سال پیچھے ہے۔ وہ اچھے زمانے تھے جب پارٹی کا بیانیہ اکیلے پرویز رشید ہی روزانہ ایک پریس ریلیز سے بنا لیا کرتے تھا۔اب ایسا نہیں ہوتا۔ انتخابات کے بعد اگر مسلم لیگ حکومت بنا بھی لے تو یقین جانیے اپنی موجودہ میڈیا مشین کے ساتھ بہت جلد عوام میں حد درجہ ’’مقبول‘‘ ہو جائے گی۔

Back to top button