عدم اعتماد ناکام بنا کر بھی بے نظیر حکومت کیوں نہ بچ پائی؟
پاکستان میں تحریک عدم اعتماد کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ماضی کے وزرائے اعظم اپنے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے میں تو کامیاب رہے لیکن اس کے بعد زیادہ عرصہ اقتدار میں نہیں رہ پائے اور انہیں فارغ کردیا گیا۔
اگست 1988 میں جنرل ضیا الحق کے ایک طیارہ حادثے میں بھسم ہو جانے کے بعد پاکستان میں سیاست کا نقشہ اچانک پلٹ گیا، اس اچانک حادثے کے بعد آرمی چیف اور صدارت کے عہدے دو الگ الگ اشخاص کے پاس چلے گئے۔ سابق سفارت کار اور مصنف حسین حقانی اپنی کتاب ’پاکستان: بٹوین موسک اینڈ ملٹری‘ میں لکھتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور صدر غلام اسحاق خان ضیا دور میں اختیار کی گئی افغان پالیسی کا تسلسل چاہتے تھے۔ انتخابات میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل نے ایک سیاسی اتحاد تشکیل دیا جس میں مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور دیگر چھوٹی مذہبی جماعتیں شامل تھیں، جنرل حمید گل نے بعد ازاں یہ اتحاد بنوانے کا اعتراف بھی کیا۔ صدر اسحاق خان ملک کے عبوری صدر تھے اور 1990 میں ان کی مدت ختم ہونے والی تھی۔ وہ بے نظیر کو حکومت بنانے کی دعوت دینے سے قبل ہی اپنی مستقل صدرات کے لیے یقین دہانی حاصل کرنا چاہتے تھے۔
برطانوی صحافی اوون بینٹ جونز اپنی کتاب ‘بھٹو ڈائنیسٹی: دی پاور سٹرگل ان پاکستان’ میں لکھتے ہیں کہ بے نظیر کے سامنے اس وقت دو راستے تھے۔ غلام اسحاق خان چاہتے تھے آئی جے آئی اور پیپلز پارٹی مل کر مرکز میں حکومت بنا لیں لیکن بے نظیر نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا، لیکن بعد میں جب صدارتی انتخاب کا مرحلہ آیا تو غلام اسحاق خان پیپلز پارٹی اور آئی جے آئی کے متفقہ امیدوار تھے اور ان دونوں سیاسی حریفوں نے انہیں منتخب بھی کرایا۔
پیپلزپارٹی کے اندر ہی ایک خیال یہ بھی پایا جاتا تھا کہ اکثریت حاصل نہ ہونے کی صورت میں پی پی پی کو اپوزیشن میں بیٹھ جانا چاہیے اور سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے، بے نظیر اس مؤقف کی بھی مخالفت کرتی تھیں، یپلز پارٹی سندھ میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی، سرحد میں اس نے عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ اتحادی حکومت بنائی جبکہ بلوچستان میں پیپلزپارٹی اور آئی جے آئی دونوں ہی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھیں، بلوچستان میں جمیعت علمائے اسلام( ف) کو 10 اور بلوچستان نیشنل الائنس کو 11 نشستیں ملی تھیں۔
اس سے پہلے کہ نواز شریف وفاقی حکومت کے خلاف سیاسی داؤ پیچ شروع کرتے، بے نظیر بھٹو نے 1989 میں پنجاب میں وزیراعلیٰ نواز شریف کی حکومت گرانے کے لیے ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا فیصلہ کیا، تاہم انہیں ناکامی ہوئی۔ پنجاب میں ناکام عدم اعتماد کے بعد غلام اسحاق خان کا جواب تیار تھا کیوں کہ وہ پہلے ہی بے نظیر سے خائف تھے اور خفا بھی۔ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم ہونے کی وجہ سے بے نظیر کو پوری دنیا میں بہت پذیرائی مل رہی تھی، یہ بات غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ کے لیے تشویش کا باعث بن رہی تھی کیوں کہ وہ خارجہ امور سے دور رہنے کی یقین دہانی کرا کر اقتدار میں آئی تھیں لیکن وہ سب سے زیادہ اسی شعبے میں فعال نظر آ رہی تھیں۔ ایوانِ صدر میں بے نظیر بھٹو سے متعلق ناپسندیدگی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا تھا، وزیراعظم سیکریٹریٹ سے آنے والی فائلوں پر کئی کئی روز تک کوئی جواب نہیں دیا جاتا تھا۔
برطانوی صحافی اوون بینیٹ جونز اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کے گرد محاصرے جیسا ماحول تھا جس میں وہ کام کررہی تھیں۔ چناچہ انہوں نے سویلین انٹیلی جنس ایجنسی انٹیلی جنس بیورو کو مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا۔ جب بے نظیر کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی خبریں گردش میں تھیں تو آئی بی نے انکشاف کیا کہ آئی ایس آئی کے دو افسران بریگیڈیئر امتیاز عرف بلا اور میجر عامر بے حکومت گرانے کے لیے پیپلز پارٹی کے اراکین کی وفا داریاں تبدیل کرانے کی کوشش کررہے ہیں، آئی بی کی اس کارروائی کو’ آپریشن مڈ نائٹ جیکال’ کا نام دیا گیا تھا۔ آئی بی نے ان افسران کے ارکان اسمبلی سے ہونے والے رابطوں کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگز بھی حاصل کرلی تھیں۔ بے نظیرنے یہ مواد جنرل اسلم بیگ کو دے دیا جنھوں ںے ان افسران کو برطرف کر دیا۔
بے نظیر بھٹو اپنی کتاب ’ڈاٹر آف ڈیسٹنی‘ میں الزام عائد کرتی ہیں کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کامیاب کرانے کے لیے اُسامہ بن لادن نے مالی معاونت فراہم کی تھی، وہ لکھتی ہیں کہ انہیں ایک رپورٹ موصول ہوئی کہ سعودی طیارہ آم کی پیٹیاں لے کر پاکستان پہنچا ہے۔
اس پر وزیرِ اعظم کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ سعودی عرب میں کھجور کی پیدوار تو ہوتی ہے لیکن وہاں سے آموں کی پیٹیاں آنے کی اطلاع پر انہیں کچھ شبہ ہوا۔ سویلین انٹیلی جنس نے کچھ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ جنہیں آم کی پیٹیاں بتایا گیا تھا اس میں تو بھاری رقم تھی۔ وہ لکھتی ہیں کہ سعودی فرماں روا نے میرے والد کو اپنا بھائی اور مجھے اپنی بیٹی قرار دیا تھا۔ اس لیے جب طیارے میں یہ رقم آنے کی خبر ملی تو انہوں نے اپنے وزیرِ قانون کو یہ پیغام بھیج کر سعودی عرب روانہ کیا کہ کیا وہ اپنی بیٹی سے ناراض ہوگئے ہیں، سعودی بادشاہ نے بے نظیر کے پیغام رساں کو جواب دیا کہ اس رقم کا سعودی حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ بے نظیر اپنی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے ہونے والی کوششوں کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ 1989 تک افغانستان میں سوویت یونین کی پسپائی سے پاکستان کی فوج اور خفیہ اداروں میں یہ اعتماد پیدا ہوگیا تھا کہ وہ اب مغرب کو بھی شکست دے سکتے ہیں۔
سیاسی مؤرخین کے مطابق آپریشن مڈ نائٹ جیکال کے بعد وفاداریاں تبدیل کرنے والے رہنما بھی ہوشیار ہوچکے تھے اور دونوں طرف سے ہارس ٹریڈنگ کے لیے بے پناہ سرمائے کا استعمال کیا جارہا تھا۔
اس وقت قومی اسمبلی کے ایوان میں عام اور مخصوص نشستوں سمیت اراکین کی کل تعداد 237 تھی جس میں تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 119 ووٹ درکار تھے، پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 92 تھی اور وزیراعظم پر اعتماد کے لیے اسے مزید 27 ووٹ چاہئے تھے۔ اسی طرح اسلامی جمہوری اتحاد کے ارکان کی تعداد 54 تھی اور تحریک کی کامیابی کے لیے اسے 65 مزید ووٹ درکار تھے، لیکن آئی جے آئی نے عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں جمع کرانے کے روز ہی یہ دعویٰ کر دیا کہ اسے 129 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب اپنی کتاب ’ویٹنگ فور اللہ‘ میں لکھتی ہیں کہ دونوں جانب سے وفاداریاں تبدیل کرانے کے لیے کروڑوں روپے پانی کی طرح بہائے گئے لیکن اس پوری مشق سے جمہوریت کا کوئی بھلا نہیں ہونے والا تھا۔ وہ لکھتی ہیں کہ بے نظیر نے سیاسی جوڑ توڑ میں وزارتوں کی پیش کش کی، ممکنہ ضرورت کے پیشِ نظر اپنی پوری کابینہ کے استعفی لے کر اپنے پاس رکھ لیے تھے۔ حکومت اور آئی جے آئی نے اپنے اپنے حامیوں کو ترغیبات اور دباؤ سے بچانے کے لیے تحریک پیش ہونے سے قبل اپنی نگرانی میں ‘محفوظ مقام’ پر پہنچا دیا تھا۔ صوبہ سرحد میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، اس نے اپنے 100 حامی ارکانِ قومی اسمبلی کو منگورہ میں رکھا ہوا تھا، بے نظیر نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ ان کے حامیوں کو نواز شریف نے مری کے گیسٹ ہاؤس میں محصور کیے رکھا اور دباؤ اور لالچ سے ان کی وفا داریاں تبدیل کرانے کی کوشش کی۔ بالآخر یکم نومبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی گئی، تحریک پر رائے شماری ہوئی تو 107 ارکان نے عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 124 ارکان نے اس کی مخالفت کی اور یوں بے نظیر کی حکومت بچ گئی، عدم اعتماد پر رائے شماری میں اپوزیشن کے سات اور حکومت کے تین ارکان نے اپنی وفاداریاں تبدیل کیں جب کہ اے این پی کے ولی خان سمیت پانچ ارکانِ اسمبلی غیر حاضر رہے۔ لیکن
بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد ناکام ہونے کے بعد ججوں اور فوجی افسران کی تعیناتی کے معاملے پر فوجی اسٹیبلشمنٹ اور وزیرِ اعظم کے درمیان ٹھنی رہی۔ چنابچہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہونے کے صرف آٹھ ماہ بعد ہی صدر غلام اسحاق خان نے پانچ اگست 1990 کو آئین کی دفعہ 58 ٹو بی کے تحت حاصل اختیار استعمال کرتے ہوئے بے نظیر کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ یو بے نظیر بھٹو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے میں تو کامیاب رہیں لیکن اس کے بعد اپنی حکومت نہ بچا پائیں۔