عمران خان نے قرضے لینے کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے


وزیراعظم عمران خان کی تبدیلی سرکار نے پچھلے تین برسوں میں ریکارڈ توڑ بیرونی قرضے لے کر ملک کے مجموعی قرضوں کو 240 کھرب روپوں سے 380 کھرب روپوں تک پہنچا دیا ہے، یعنی کپتان سرکار نے پچھلے تین برس میں 140 کھرب روپے کے نئے قرضے حاصل کیے جن کا بوجھ پاکستانی عوام بڑھتے ہوئے ٹیکسوں اور مہنگائی کی صورت میں اٹھا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ 140 کھرب کا قرضہ اب تک پاکستانی تاریخ میں کسی ایک دور حکومت میں لیا جانے والا سب سے زیادہ قرضہ ہے۔
حکومت کے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس سال مارچ تک پاکستان کا مجموعی قرض 38 ٹریلین یعنی 380 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان اقتصادی سروے 2021-2020 کے مطابق جب وزیراعظم عمران خان نے 2018 میں اقتدار سنبھالا تو ملک کا مجموعی قرض 24.9 ٹریلین روپے تھا جو اگلے سال تقریباً آٹھ ٹریلین کے اضافے کے ساتھ 32.7 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا۔اس کے بعد سال 2020 میں مزید اضافے کے ساتھ مجموعی قرض 36.4 ٹرلین تک جا پہنچا اور اس سال مارچ تک 38 ٹریلین کا قرض حکومت پاکستان کے ذمہ واجب الادا ہے۔
پاکستان میں بڑھتے ہوئے قرضوں کا معاملہ گزشتہ دور حکومت میں بھی اپوزیشن اور حکومت کے درمیان وجہ تنازع رہا ہے۔جب وزیراعظم عمران خان اپوزیشن میں تھے تو انہوں نے مسلم لیگ نواز کی اس وقت کی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ معیشت کو قرضوں کا محتاج بنا دیا ہے تاہم ان کے اپنے دور اقتدار میں مجموعی قرضے میں تقریباً 14 ٹریلین یا 140 کھرب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔اسلام آباد میں اقتصادی سروے کی لانچنگ کے دوران وزیر خزانہ شوکت ترین نے بتایا کہ گزشتہ ایک سال میں ملک کے اوپر مجموعی قرض میں زیادہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا اور صرف ایک اعشاریہ سات ٹریلین کا اضافہ ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ قرضوں میں اضافہ 2019 میں دیکھنے میں آیا تھا تاہم اس وقت قرضوں کا بڑھنا مجبوری تھی کیونکہ کہیں نا کہیں سے تو ملک کا خرچ چلانے کے لیے درکار رقم کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اضافہ عارضی تھا کیونکہ شرح سود اس وقت زیادہ تھی اور ڈالر کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا تھا جس سے قرض میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔
اقتصادی سروے میں سنہ 1971 سے لے کر اب تک قرضوں کی تفصیل دی گئی ہے جس کے مطابق 1970 میں پاکستان پر مجموعی قرض صرف 30 ارب روپے تھا۔ اس کے بعد بھٹو دور حکومت کے خاتمے پر 1977 میں مجموعی قرض 97 ارب ہو گیا تھا۔ 1988 میں سابق فوجی حکمران جنرل ضیا الحق کے اقتدار سے خاتمے کے وقت ملک کا مجموعی قرض 523 ارب تک پہنچ گیا۔ گویا ان کے دور میں قرضوں میں 426 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔
اس کے بعد بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں اور جب اگست 1990 میں ان کی حکومت برطرف ہوئی تو اس وقت ملک کا مجموعی قرض 711 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ ان کے دور میں قرض میں 188 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔ پھر
نواز شریف برسراقتدار آئے اور جب ان کی حکومت جولائی 1993 میں ختم ہوئی تو تب مجموعی قرض 1135 ارب یعنی ایک اعشاریہ ایک ٹریلین روپے ہو گیا۔ گویا ان کے دور میں قرض میں 422 ارب کا اضافہ ہوا تھا۔
اس کے بعد بے نظیر بھٹو کی حکومت نومبر 1996 میں ختم ہوئی تو ملک کا مجموعی قرض 1704 ارب روپے یعنی ایک اعشاریہ سات ٹریلین ہو چکا تھا جس کا مطب ہے ان کے اس دور میں ملک کا قرض 569 ارب روپے بڑھا تھا۔
1996 میں نواز شریف کا دوسرا دور حکومت شروع ہوا اور جب اکتوبر 1999 میں مارشل لا کے نفاذ کے ذریعے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت ختم کی تو ملک کا مجموعی قرض 2946 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔ گویا نوازشریف کے دوسرے دور اقتدار میں قرض میں 1242 ارب روپے یعنی ایک ٹریلین سے بھی زائد کا خطیر اضافہ ہوا تھا۔
اس کے بعد مشرف نے بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومت کی اور جب اسکے اقتدار کا سورج 2008 میں غروب ہوا تو پاکستان کا قرض 6127 ارب یا چھ ٹریلین تک پہنچ چکا تھا گویا مشرف کے عروج کے دنوں میں پاکستان پر 3181 ارب یا تین ٹریلین روپے کا مزید قرض کا بوجھ پڑا۔ مشرف اور مسلم لیگ ق کی حکومت کے بعد پیپلز پارٹی کا دور حکومت شروع ہوا جس کا خاتمہ 2013 میں ہوا تو ملک کا قرض 14.2 ٹریلین روپے ہو چکا تھا جس کا مطلب ہے اس دور میں قرض میں آٹھ ٹریلین سے زائد کا اضافہ ہوا۔ اس کے بعد مسلم لیگ نواز کی حکومت 2013 سے 2018 تک قائم رہی جس دوران ملک کا قرض 14.2 سے 24.9 ٹریلین تک پہنچ گیا جس کا مطلب ہے اس دور میں 10 ٹریلین سے زائد کا قرض لیا گیا۔
پی ٹی آئی کے موجودہ دور میں اب تک اڑھائی سالوں میں 14 ٹریلین روپے سے زائد کا قرض لیا جا چکا ہے جو اب تک کی پاکستانی تاریخ میں کسی ایک دور حکومت میں لیا جانے والا سب سے زیادہ قرضہ ہے جس کا بوجھ پاکستانی عوام بڑھتے ہوئے ٹیکسوں اور مہنگائی کی صورت میں اٹھا رہے ہیں۔

Back to top button