عمران کی عزت سے گھر جانے کی کوشش کیسے ناکام ہوئی؟
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے فیس سیونگ حاصل کر کے وزت سے گھر جانے کی ناکام کوشش کی تفصیلات سامنے آ گئیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے خود فوجی اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کر کے درمیانی راستہ نکالنے کی درخواست کی تھی جو کہ اپوزیشن نے سختی سے مسترد کر دی۔ تاہم عمران خان نے چالاکی دکھاتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ جیسے یہ کوشش انہوں نے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنے طور پر کی تھی۔ چنانچہ اسٹیبلشمنٹ بھی کھل کر سامنے آ گئی اور عمران کے بیان کی سختی سے تردید کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ انکی جانب سے وزیر اعظم کو کسی قسم کے کوئی آپشنز نہیں دیئے گے تھے بلکہ موصوف نے خود رابطہ کرکے آپشنز دیے تھے جو کہ اپوزیشن نے مسترد کر دیے۔
واضح رہے کہ اے آر وائی نیوز کے ارشد شریف کو ایک انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے بتایا تھا کہ پاکستانی فوج کی جانب سے مجھے کہا گیا کہ یا تو میں تحریک عدم اعتماد کا سامنا کروں، یا استعفیٰ دوں یا نئے الیکشن کراﺅں۔ تاہم میں نے واضح کیا کہ میں استعفیٰ نہیں دونگا بلکہ آخری گیند تک لڑوں گا۔ تاہم اس انٹرویو کے فوری بعد اے آر وائی نیوز کے ہی ایک پروگرام میں وسیم بادامی نے عسکری ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اصل کہانی بیان کر دی۔ انہوں نے بتایانکہ ملٹری قیادت نے وزیراعظم کو نہ تو کوئی تجویز دی اور نہ ہی مشورہ دیا کیونکہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس میں مداخلت کی جا رہی ہے۔ وسیم بادامی نے عسکری ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد وزیراعظم آفس نے خود اپروچ کرکے اسٹیبلشمنٹ کو مدد کرنے کا پیغام پہنچایا۔ وزیراعظم کے پیغام پر اسٹیبلشمنٹ کی دو سینئیر حکام وزیراعظم ہاﺅس پہنچے تھے۔ اس موقع پر وزیراعظم نے پوچھا کہ تحریک عدم اعتماد سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے؟ میرے پاس کیا آپشنز ہیں۔ اس پر وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ تین ہی آپشنز ہو سکتے ہیں۔ ایک آپشن یہ ہے کہ آپ تحریک عدم اعتماد کا سامنا کریں۔
دوسرا آپشن یہ ہے کہ آپ اس سے پہلے استعفیٰ دے دیں اور اقتدار چھوڑ دیں جبکہ تیسرا آپشن قبل از وقت انتخابات کا ہے۔ اس موقع پر عمران خان نےمصالحت کرانے اور درمیانی راستہ نکالنے کیلئے کہا اور تجویز دی کہ اگر حزب اختلاف تحریک عدم اعتماد واپس لے لیتی ہے تو وہ بجٹ اجلاد کے فوری بعد اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کا اعلان کر دیں گے۔ عسکری ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کے کہنے پر اپوزیشن سے بات ضرور کی گئی مگر اپوزیشن کے صاف انکار کے بعد یہ تجویز ختم ہو گئی کیونکہ قبل از وقت الیکشن کے آپشن پر اپوزیشن کا متفق ہونا ضروری تھا لیکن اس کا عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نکالنے پر اصرار تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عسکری اسٹیبلشمنٹ کو اس معاملے کی وضاحت پیش کرنے کی ضرورت عمران خان کے ایک تفصیلی انٹرویو کے بعد پیش آیا ہے جس میں انہوں نے حقائق کو توڑ مروڑ کر بیان کرنے کی کوشش کی اور ایسا تاثر دیا کہ جیسے فوج اب بھی سیاست میں ملوث ہے۔ اے آر وائے کو دیئے گئے انٹرویو میں عمران نے دعویٰ کیا تھا کہ اسٹیبلشمینٹ نے اُنھیں سیاسی بحران کے حل کے لیے اپوزیشن کی طرف سے تین چیزوں میں سے ایک کے چناؤ کی پیشکش کی۔ ان کے مطابق انھیں کہا گیا کہ آیا وہ عدم اعتماد کا سامنا کریں، یا استعفیٰ دے دیں یا عدم اعتماد کی واپسی کی صورت میں قبل از وقت انتخابات کروا دیں۔ارشد شریف کو عمران کے خصوصی انٹرویو کے بعد اسٹیبلشمنٹ بھی حرکت میں آگئی اور اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ اے آر وائی کے ہی ایک اور پروگرام میں وسیم بادامی نے عسکری ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ ’وزیراعظم آفس نے عسکری قیادت سے تحریک عدم اعتماد سے متعلق رابطہ کیا اور پوچھا کہ وہ کیا مدد کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد عسکری قیادت وزیراعظم ہاؤس گئی اور ممکمنہ آپشنز زیر بحث آئے۔ عدم اعتماد کا سامنا کرنے اور استعفیٰ دینے کے آپشن پر وزیر اعظم مطمئن نہیں تھے۔ عمران نے تیسرے آپشن یعنی اپوزیشن عدام اعتماد واپس لے تو وہ اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے، پر اتفاق کیا مگر عسکری قیادت جب یہ تجویز لے کر اپوزیشن کے پاس گئی تو اپوزیشن نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا۔‘
وسیم بادامی کے اس دعوے کے بعد پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ بحث چھڑ گئی کہ آیا یہ پیشکش فوج کی جانب سے کی گئی تھی یا پھر حکومت نے اس معاملے میں فوج کی مدد مانگی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اس معاملے میں کردار ادا کرنے کی باتیں کئی روز سے گردش کر رہی تھیں اور قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل سیاسی گرما گرمی کے ماحول میں حکومت کی جانب سے ان خبروں کی تردید کی گئی تھی جن کے مطابق وزیر اعظم نے اپوزیشن کو کوئی پیغام بھجوایا ہے۔ مسلم لیگ نون رہنما رانا ثنا اللہ سے جب پارلیمنٹ میں صحافیوں نے سوال کیا کہ کیا ان خبروں میں کوئی صداقت ہے کہ تحریک انصاف یا وزیراعظم کی جانب سے اپوزیشن کو کوئی آفر کی گئی ہے کہ تحریک عدم اعتماد واپس لینے کی صورت میں اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی تو انھوں نے جواب دیا کہ عمران خان نے این آر او مانگا ہے لیکن ان کو این آر او نہیں دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ نجی ٹی وی چینلز پر ذرائع سے خبر نشر کی گئی کہ اپوزیشن کو حکومت کی جانب سے یہ پیغام دیا گیا کہ اگر تحریک عدم اعتماد واپس لے لی جائے تو ایسی صورت میں اسمبلیاں تحلیل کی جا سکتی ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر نون لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق نے پارلیمنٹ میں صحافیوں کی جانب سے موجودہ سیاسی بحران میں ثالثی کے سوال پر کہا تھا کہ ثالثی بری چیز نہیں، ثالثی کی کبھی مخالفت نہیں کرنی چاہیے لیکن ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان فوج کے ترجمان کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار 10 مارچ کو میڈیا کے ساتھ پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں یہ کہہ چکے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں اور وہ موجودہ سیاسی صورت حال پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔ بابر افتخار نے یہ بھی کہا تھا کہ ’فوج پر سیاست میں مداخلت کا الزام لگانے والوں سے ثبوت مانگے جائیں، ماضی میں کوئی بھی اس معاملے پر ثبوت پیش نہیں کرسکا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ فوج غیر جانبدار ہے اور سیاست میں نیوٹرل ہے۔ لیکن ان کے اس موقف کے اگلے ہی روز وزیراعظم نے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے یہ بیان داغ دیا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں۔