غیر قانونی افغانوں کو نکال کر پاکستان کو الٹا کیا نقصان ہونگے؟

سینئر صحافی اور کالم نگار جاوید چودھری نے کہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کے معاملے میں دو خوف ناک غلطیاں کیں ۔ہم نے 1980میں چند سیکنڈ میں ایک حکم کے تحت افغانوں کے لیے اپنے سارے بارڈرز کھول دیے چناں چہ ایک سال میں پچاس لاکھ افغانی پاکستان آئے اور انھوں نے ہماری مت مار دی اور پھر 43 سال بعد 2023 میں ہم نے ایک ماہ کے نوٹس پر انھیں نکال دیا اور ہمیں اب جلد بازی میں کیے گئے اس فیصلے کا بھی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ افغانستان نے پاکستان سے امپورٹس پر پابندی لگا دی ہے افغانستان نے لوہا‘ سیمنٹ، مرغی اور اسلحہ بھی ہم سے خریدنا بند کر دیا ہےافغان ٹرانزٹ ٹریڈ پاکستان کی بجاۓ ایران کی چاہ بہار پورٹ پر چلا گیا اور افغانستان اب ایک بار پھر بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے اپنے ایک کالم میں جاوید چودھری کہتے ہیں کہ ہم میں یہ بہت بڑی خرابی ہے ہم ہمیشہ وہ جنگ شروع کر دیتے ہیں جس میں ہماری ہار لازمی ہوتی ہے اور یہ ہماری قومی فطرت بن چکی ہے‘ آپ سرحدی تنازعوں سے لے کر کرکٹ اور سیاست تک اپنے معاشرے کا تجزیہ کر لیں آپ کو ہر جگہ‘ ہر فورم پر یہ غلطی نظر آئے گی۔ ہم نے کشمیر کے نام پر بھارت کے ساتھ چار جنگیں لڑیں‘ ہمیں کیا فائدہ ہوا؟ کیا ہم نے وہ جنگیں جیت لیں؟ کیا ہم نے کشمیر حاصل کر لیا‘ ہم ستر سال سے اپنے ہمسایوں کے ساتھ بھی منہ بنا کر بیٹھے ہیں‘ ہمیں کیا فائدہ ہوا؟ کیا بھارت‘ افغانستان یا ایران ختم ہو گئے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب ملک دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں‘ جاوید چودھری کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ابھی تازہ تازہ غیر قانونی مقیم افغانوں کو ملک سے نکال دیا‘ اس کا ہمیں کیافائدہ ہوا؟ الٹا افغانستان نے پاکستان سے امپورٹس پر پابندی لگا دی‘ ہماری مرغی افغانستان جاتی تھی‘ افغانوں نے یہ اب ایران سے خریدنا شروع کر دی ہے۔
افغان ٹرانزٹ چاہ بہار پورٹ پر چلا گیا‘ یہ اب ایران کے ذریعے امپورٹ کرے گا اور یہ مصنوعات دوبارہ پاکستان آئیں گی اور ہم جو کراچی پورٹ کے ذریعے چند لاکھ ڈالر کماتے تھے ہم ان سے بھی محروم ہو جائیں گے۔
افغانستان نے لوہا‘ سیمنٹ اور اسلحہ بھی ہم سے خریدنا بند کر دیا ہے‘ یہ اب چین کی مدد سے ملک کے اندر پیداوار شروع کر رہا ہے‘ یہ لوگ اب طور خم کے بجائے چین کے ساتھ واہ خان کوریڈور کھول رہے ہیں اور عن قریب یہ راستہ پورے سینٹرل ایشیا اور ایران کے لیے ہائی وے بن جائے گا اور ہم سی پیک کو لے کربیٹھ جائیں گے۔ افغانستان اب ایک بار پھر بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے‘ بھارت دوبارہ افغانستان کو اپنا مورچہ بنائے گا اور ہم پر دونوں سائیڈز سے گولہ باری کرے گا‘ ہم اگر فیصلے سے پہلے غور کر لیتے تو ہم اسے مزید پیداواری بنا سکتے تھے مثلاً ہم یورپ‘ ترکی اور امریکا کی طرح افغانوں کے لیے ایک اسپیشل انویسٹمنٹ اسکیم لا سکتے تھے‘ ہم انھیں پیش کش کرتے‘ یہ سرکاری خزانے میں پانچ لاکھ ڈالر یا اس کے مساوی رقم جمع کرائیں اور پاکستانی شہریت حاصل کر لیں‘ اس اسکیم سے دو چار پانچ دس ہزار لوگ فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ اس سے یہ ایشو بھی نہ بنتا‘ افغانستان بھی ناراض نہ ہوتا اور ہمیں ایک آدھ بلین ڈالر بھی مل جاتے لیکن ہمیں کیوں کہ ایسی جنگیں چھیڑنے کا شوق ہے جن کے آخر میں ہماری ہار یقینی ہوتی ہے لہٰذا ہم نے یہ محاذ بھی کھول لیا‘ جاوید چودھری کہتے ہیں کہ آپ اب اس تناظر میں باقی فیصلے بھی دیکھ لیجیے‘ آپ عمران خان اور میاں نواز شریف کی سیاست کا تجزیہ بھی کر لیجیے۔ کیا میاں نواز شریف بھی ہمیشہ وہ جنگ نہیں چھیڑتے رہے جس کا نتیجہ آخر میں وہ نکلتا تھا جو اس وقت نکل رہا ہے اور کیا عمران خان نے بھی وہی جنگ نہیں چھیڑ لی جس کے آخر میں یہ ہیرو شیما کا کھنڈر بن کر رہ جائیں گے اور کیا حماس بھی غزہ میں یہ حماقت نہیں کر بیٹھا ؟ اگر اس کا جواب ہاں ہے تو کیا پھر ہمیں جاپان سے نہیں سیکھنا چاہیے ، وہ جاپان جو 1945 میں ہیروشیما اور ناگاساکی کے ایٹمی حملوں کے بعد مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا مگر ٹھیک پانچ سال بعد یعنی 1950 میں یہ نہ صرف اپنے قدموں پر کھڑا تھا بلکہ یہ تیزی سے ترقی کرنے والے ملکوں میں بھی شمار ہوتا تھا؟ آج بھی اس کی ایکسپورٹس یورپ کی مجموعی ایکسپورٹس سے زیادہ ہیں اور یہ فوج کے بغیر دنیا کی چوتھی بڑی معاشی طاقت ہے اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے دنیا میں کوئی بھی نئی ایجاد آئے اس کا کوئی نہ کوئی پرزہ‘ کوئی نہ کوئی زاویہ یا کوئی نہ کوئی آئیڈیا جاپان میں جنم لیتا ہے. جاپانی زبان کا ایک محاورہ ہے‘ آپ جو جنگ جیت نہیں سکتے۔ آپ کو وہ شروع ہی نہیں کرنی چاہیے مگر شاید قدرت بھی عقل جاپان جیسی قوموں کو ہی دیتی ہے‘ یہ ہم بے وقوفوں پر اتنی مہربانی بھی نہیں کرتی۔

Back to top button