غیر ملکی سازش کا الزام لگانے والے عمران کے غیر ملکی ساتھی
اپوزیشن جماعتوں کے ہاتھوں اپنی وزارت عظمیٰ سے بے دخلی کو بیرونی طاقتوں کی سازش قرار دینے والے وزیراعظم عمران خان کی اپنی کابینہ میں ایسے ڈھیروں غیر منتخب مشیران اور معاونین خصوصی شامل تھے جو کہ غیر ملکی شہریت رکھتے تھے اور اکثر عوامی تنقید کا شکار رہتے تھے۔ اسی وجہ سے حکومتی جماعت کے اندر بھی یہ بحث جاری رہتی تھی کہ کیا منتخب اراکین اسمبلی میں وہ اہلیت نہیں تھی جو عمران کو دوسرے ملکوں کی شہریت رکھنے والوں میں نظر آتی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ دوہری شہریت رکھنے والے وزیراعظم کے مشیران اور معاونین خصوصی کو کابینہ سے نکالنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن بھی دائر ہوئی تاہم عدالت نے قرسع دیا کہ یہ وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ہے۔ عدالت نے ایسے افراد کے بارے میں قرار دیا کہ وہ وزیراعظم کے مشیر یا معاون خصوصی تو ہو سکتے ہیں تاہم انھیں کابینہ کا حصہ نہیں گردانا جا سکتا۔ اسی وجہ سے کابینہ کی کمیٹیوں کی سربراہی کرنے والے افراد سے سربراہی واپس لے لی گئی تھی۔
اردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق عمران خان کی وفاقی کابینہ میں جو افراد دوہری شہریت یا کسی دوسرے ملک میں رہائش کا اجازت نامہ رکھتے تھے ان میں معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر امریکی شہری تھے، معاون خصوصی برائے بیرون ملک مقیم پاکستانی سید ذوالفقار عباس بخاری عرف ذلفی بخاری برطانیہ کے شہری تھے، وزیر اعظم کی سابق معاون خصوصی برائے ڈیجیٹل پاکستان تانیہ ایدروس کینیڈا کی شہری تھیں۔ سابق معاون خصوصی برائے توانائی ڈویژن شہزاد قاسم امریکہ کے شہری تھے۔
اس کے علاوہ جو معاونین دیگر ممالک کی رہائش رکھتے تھے ان میں وزیراعظم کے بدزبان معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گِل اور معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف کے پاس امریکہ کی شہریت تھی۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پارلیمانی کوآرڈینیشن ندیم افضل گوندل کینیڈا کے شہری تھے، جبکہ سید طارق محمود الحسن کے پاس برطانیہ کی شہریت تھی۔ بعد ازاں مختلف وجوہات کی بنیاد پر ندیم بابر، سید ذوالفقار عباس بخاری، شہزاد قاسم، تانیہ ایدروس اور ندیم افضل گوندل کو فارغ کر دیا گیا۔
اسی طرح سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ بھی امریکہ سے پاکستان آئے تھے جبکہ معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا بھی عالمی ادارہ صحت چھوڑ کر پاکستان آئے تھے تاہم ان کے پاس غیر ملکی شہریت نہیں تھی۔
ڈاکٹر معید یوسف کو 2019 میں وزیراعظم کا مشیر برائے قومی سلامتی تعینات کیا گیا تھا۔ انھوں نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز اور پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کررکھی ہے۔ وہ متعدد کتابوں کے منصف ہونے کے ساتھ بین الاقوامی تھنک ٹینکس اور جامعات کے ساتھ وابستہ رہ چکے ہیں۔ ان کی تحقیق کا مرکز جنوبی ایشیا کو درپیش مسائل کا خاتمہ، جنوبی ایشیائی ملکوں کے درمیان باہمی تجارت اور خطے سے غربت کے خاتمے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ ہے۔
ڈاکٹر معید یوسف نے 17 اکتوبر 2019 کو چیئرمین سٹرٹیجک پالیسی پلاننگ سیل کا عہدہ سنبھالا تھا۔ سیل کے چیئرمین کی حیثیت سے وہ قومی سلامتی کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ معاون خصوصی معید یوسف بین الاقوامی تنازعات کے تصفیے کے لیے قائم امریکی ادارے یو ایس آئی پی سے کم و بیش 10 برس منسلک رہے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر معیدیوسف کا شمار عمران خان کے ان ساتھیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے حکومت کے خلاف امریکی سازش کا بیانیہ آگے بڑھانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
اسی طرح عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی ابلاغ شہباز گِل امریکی گرین کارڈ ہولڈر ہیں اور حکومت کے خاتمے کا بعد ان کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا گیا ہے تاکہ وہ بیرون ملک فرار نہ ہو پائی۔ موصوف قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے بھی وابستہ رہے لیکن دونوں جامعات سے خواتین کو ہراساں کرنے کے الزام پر برطرف ہوئے۔ اس کے بعد وہ امریکہ منتقل ہوگئے جہاں وہ یونیورسٹی آف الینوائے اربانا میں بطور کلینیکل اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہونے کے باوجود شہباز گل امریکی یونیورسٹی سے بھی وابستہ رہے اور وہاں سے تنخواہ بھی وصول کرتے رہے۔ جب تحریک انصاف کی حکومت بنی تو وہ صوبہ پنجاب کے وزیراعلٰی عثمان بزدار کے معاون خصوصی اور ترجمان پنجاب حکومت تعینات ہوئے۔ بعد ازاں انھیں عہدے سے ہٹا دیا گیا اور وہ اسلام آباد منتقل ہوئے جہاں وہ اپنی بد زبانی کے باعث ترقی کرتے ہوئے معاون خصوصی کے عہدے تک جا پہنچے۔ ان کا شمار بھی عمران خان کے ایسے ساتھیوں میں ہوتا ہے جو اپنے ناکام کپتان کا بیرونی سازش کا بیانیہ آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ شہباز گِل میڈیا اور سوشل میڈیا پر نہ صرف تحریک انصاف کے بیانیے پر سب سے زیادہ متحرک نظر آتے ہیں بلکہ بعض اوقات سخت زبان استعمال کرتے ہوئے نہ صرف مخالفین بلکہ بعض اوقات اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھی بحث مباحثے میں الجھ پڑتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہیں لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں جوتے اور گندے انڈے بھی کھانے پڑے۔
ساب وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی محمود الحسن ایک مصنف اور قانونی ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ فلاحی کام کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے برطانیہ نارتھمپٹن یونیورسٹی سے بزنس کی ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ قانون میں بھی ماسٹر کیا تھا۔ انھیں کچھ عرصہ قبل ہی معاون خصوصی مقرر کیا گیا۔ اس سے قبل وہ پنجاب اوورسیز کمیشن کے سربراہ رہے۔ انھیں اوورسیز پاکستانیوں باالخصوصی یورپ میں آئندہ انتخابات میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حصہ بنانے کے حوالے سے ذمہ داریاں سونپیں گئی تھیں۔
عمران خان کے قریب ترین ساتھیوں میں شمار ہونے والے زلفی بخاری برطانیہ کی شہریت رکھتے ہیں۔ راولپنڈی رنگ روڈ کرپشن سکینڈل میں اپنا نام آنے کے بعد بخاری اپنے عہدے سے فارغ ہوگئے تھے اور حکومت کے خاتمے تک وہ کابینہ سے باہر ہی رہے۔ اس کے علاوہ خود عمران خان کی ایک بڑی اہلیہ جمائما خان اور ان کے تین بچے برطانوی شہری ہیں۔