نواز حکومت کے خاتمے کے بعد مشرف نے تارڑ سے صدارت کیسے چھینی؟
12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف حکومت پر شب خون مارنے والے جنرل پرویز مشرف نے ڈیڑھ سال بعد خود صدر بننے کےلیے صدر رفیق تارڑ کو ساتھی جرنیلوں کی مدد سے پہلے تو ڈرایا دھمکایا مگر جب وہ نہ مانے تو غیر قانونی ایگزیکٹو آرڈرز جاری کر کے انہیں ایوان صدر سے بےدخل کر دیا اور خود منصب صدارت پر قبضہ کرلیا۔
سابق صدر پاکستان جسٹس (ر) رفیق تارڑ کے پریس سیکرٹری اور سینئر کالم نگار عرفان صدیقی اس فوجی واردات کی کہانی بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 13 جون 2001 کو تب کے صدر رفیق تارڑ کی جانب سے دیے گئے خفیہ عشائیے میں ملک کے سیاہ و سفید کے مالک فوجی جرنیل اور ان کے سہولت کار شریک ہوئے۔ ان میں چیف آف آرمی اسٹاف، چئیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، چیف ایگزیکٹو پاکستان جنرل پرویز مشرف ، چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل محمد یوسف ، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد، چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل غلام احمد اور جنرل مشرف کے معتمد خاص طارق عزیز شامل تھے۔
واضح رہے کہ اس عشائیے کی خواہش خود جنرل پرویز مشرف کی طرف سے آئی تھی جو ایک سوچی سمجھی اسکیم کا حصہ تھی۔ 13 جون کی تاریخ اور شرکاء کی فہرست بھی انہوں نے دی تھی۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس ملاقات کی میڈیا کوریج نہیں ہو گی۔
عرفان صدیقی کے مطابق اس عشایئے کے بعد جنرل مشرف نے گلا صاف کیا اور طویل تمہید کے بعد حرفِ مدعا پہ آئے اور کہا کہ سر اس صورت حال میں فوجی قیادت کی رائے یہ ہے کہ میرے صدر بن جانے سے پالیسیوں کے تسلسل کا پیغام جائے گا۔ باہر سے سرمایہ کاری آئے گی۔ ملکی مفاد کو تقویت ملے گی۔ جنرل مشرف حرفِ مدعا کہہ چکے تو صدر رفیق تارڑ نے بھی تفصیل سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا اور آخر میں کہنے لگے ”آپ کے صدر بننے کی کیا صورت ہے؟ طریقہ کار کیا ہوگا؟ جنرل غلام محمد گویا ہوئے ”طریقہ کار کیا ہونا ہے سر، آپ استعفا بھی تو دے سکتے ہیں“۔ صدر کے لہجے میں تھوڑی ترشی آگئی۔
12 اکتوبر کو مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ کیسے الٹا؟
بولے ”جنرل صاحب! میں کسی انقلاب کے ذریعے یا کسی کا تختہ الٹ کر صدر نہیں بنا‘۔ میں منتخب اسمبلیوں سے ریکارڈ ووٹ لے کر یہاں آیا ہوں۔ اس موقع پر صدر تارڑ کو ٹوکتے ہوئے چیف آف جنرل اسٹاف، جنرل یوسف بولے ”تو کیا آئین آپ کو استعفے کی اجازت نہیں دیتا؟“ یہ سن کر صدر رفیق تارڑ کے لہجے کی ترشی، تلخی میں بدل گئی ”جی دیتا ہے اجازت مگر آپ نے اسمبلی چھوڑی نہ اسپیکر، میں کسے دوں استعفا؟“
عرفان صدیقی کے مطابق اس کے بعد جنرل محمود بولے ”آپ چیف ایگزیکٹو کو دے دیں“۔ صدر تارڑ بولے ”جنرل صاحب! آپ بہت طاقتور لوگ ہیں۔ میں سب سے بڑا عہدہ رکھنے کے باوجود آپ کے سامنے بہت کمزور ہوں، لیکن جس آئین کا آپ لوگ ذکر کر رہے ہیں اس کے مطابق میں سپریم کمانڈر ہوں۔ چیف ایگزیکٹو سمیت آپ سب میرے ماتحت ہیں۔ میری کمانڈ میں ہیں۔ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنے ماتحت کی خدمت میں استعفا پیش کردوں؟ اس پر مشرف کے ایک چماٹ طارق عزیز بولا سر! کوئی طریقہ کار تو نکالنا ہوگا نا۔
اس۔پر صدر تارڑ نے کہا کہ طریقہ کار نکالنا میرا نہیں، آپ کا دردِ سر ہے،“۔ پھر صدر تارڑ حتمی انداز میں بولے اور آخری بات سن لیں، میں استعفا نہیں دوں گا۔ اگلے روز جنرل محمود نے پیغام دیا ”کہ جنرل مشرف دورہ بھارت سے پہلے 20 جون کو صدارت کا حلف لے رہے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ آپ استعفا دے دیں“۔ مگر صدر تارڑ نے پھر صاف انکار کردیا۔
عرفان صدیقی کے مطابق 20 جون کی صبح ہی سے صدر کی رہائش گاہ سمیت پورا ایوان صدر محاصرے میں لے لیا گیا۔ اس دن کا آغاز چیف ایگزیکٹو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک فرمان سے ہوا جسے چیف ایگزیکٹو آرڈر نمبر 2 برائے 2001 کہا گیا۔ حکم صادر ہوا کہ ایمرجنسی ترمیمی آرڈر 2001 کے اجرا سے فوری قبل، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منصبِ صدارت پر فائز شخص فوری طور پر اپنے عہدے سے فارغ سمجھا جائے گا۔اس سے متصل ایک دوسرا فرمان ”چیف ایگزیکٹو آرڈر نمبر3، برائے 2001“ جاری ہوا۔ جس کے مطابق چاہے کسی بھی وجہ سے صدر کا عہدہ خالی ہوجانے پر، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا چیف ایگزیکٹو، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر بن جائے گا۔ اس کے بعد صدر رفیق تارڑ نماز ظہر ادا کر کے لاہور روانہ ہوگئے۔
سرشام ایوان صدر کی ایک پُر شکوہ تقریب میں چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے ایک حاضر سروس، وردی پوش جرنیل، چیف آف آرمی اسٹاف اور چئیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی سے صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حلف لے لیا۔ انہوں نے کوئی استفسار نہ کیا کہ منتخب صدر کہاں ہے؟
12 اکتوبر کو مشرف کیسے اقتدار پر قابض ہوا؟
عرفان صدیقی کے مطابق یہ عہدہ کیسے خالی ہوا؟ ایک باوردی جرنیل کیسے صدر بن سکتا ہے ؟ ایسی باتیں، گھاتیں اور وارداتیں، پاکستان کے معمولات کا حصہ ہیں، سو تقریب میں شریک ذی وقار مہمانوں میں سے کسی کے ماتھے پر تحیّر کی کوئی شکن نہ ابھری۔ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کوئی انوکھا واقعہ نہ تھا کیونکہ پاکستانی قوم ملک کے قیام سے آج دن تک ”وسیع تر قومی مفاد“ اور ”نظریہ ضرورت“ کے دو پاٹوں میں پس رہی ہے۔
1953 میں نیم مفلوج گورنر جنرل غلام محمد نے طاقت کے دیوتاؤں کی آشیرباد سے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو کھڑے کھڑے گھر بھیج دیا تھا۔ خواجہ صاحب جب کف در دہن غلام محمد کی گالیاں کھا کر نکلے تو اپنی ٹوپی وہیں بھول آئے۔ وہ ٹوپی اور آنے والے کئی وزرائے اعظم کی ٹوپیاں، دستاریں اور دوپٹے غلام محمد کے روحانی ورثا کے مال خانے میں پڑے ہیں۔ آج کے انقلابی دور اور عہد انصاف میں بھی کسی کی جرات نہیں کہ وہ آخری آئین شکن جنرل مشرف کا احتساب کرے۔ اس کے اربوں روپے کے کھاتوں کی منی ٹریل مانگے۔
اس سے آمدن سے زائد اثاثوں کے بارے میں کوئی سوال پوچھے۔ کوئی مائی کا لعل اس کی املاک نیلام نہیں کرسکتا۔ کسی کی مجال نہیں کہ کوئی اس کے ریڈوارنٹ جاری کرائے۔ اس کے باوجود ”ہز ماسٹرز وائس“ والے کالے توے کی طرح صبح شام ایک ہی راگ الاپا جا رہا ہے کہ احتساب سب کا ہو گا، قانون سب کےلیے ہے، ہر ایک کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہو گا۔
مگر سچ تو یہ ہے احتساب کی تلوار سے صرف حریفانِ سیاست کے سر قلم ہو رہے ہیں۔ تازیانے صر ف انہی کی پیٹھ پر برس رہے ہیں۔ قرقیاں اور نیلامیاں انہی کی املاک کی ہو رہی ہیں اور اس سب کچھ کو اپنے نامہ اعمال کا حُسن سمجھا جا رہا ہے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ جب تک آئین بے توقیر ہوتا رہے گا اور جب تک ہم قانون وانصاف کے اس دوہرے، دوغلے اور دو منہ والے عفریت سے نجات نہیں پاتے دائروں کا سفر جاری رہے گا۔