موجودہ الیکشن میں میڈیا تنقید کی زد میں کیوں رہا؟
پاکستانی انتخابی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو 1977 میں پہلی مرتبہ میڈیا کو استعمال کرنے کی بازگشت سنائی دی، اور اس بات کا ذکر معروف صحافی منیر احمد نے 1993 میں چھپنے والی اپنی کتاب ’پاکستان میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کا سیاسی کردار‘ میں کیا جس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ذوالفقار علی بھٹو نے آئی بی کے ڈائریکٹر اکرم شیخ کو 26 جون 1976 کو خط لکھا جس میں کہا گیا کہ آئی بی وزیراعظم کی خواہش کے مطابق انتخابات کے حوالے سے سروے کرائے۔انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کو ریاست کے تین ستون کہا جاتا ہے۔ آزاد میڈیا کو چوتھا ستون اس لیے گردانا جاتا ہے کیونکہ اسے ریاست کے تین ستونوں کی کارکردگی پر نظر رکھنی ہوتی ہے۔ میڈیا کو غیرجانبدار رہنا چاہئے صرف اسی صورت وہ حقائق عوام کے سامنے لا سکتا ہے مگر ایک عمومی رائے یہ بن چکی ہے کہ میڈیا کی حیثیت اب نظر رکھنے والی نہیں بلکہ وہ اب ’’منظورِ نظر‘‘ بن چکا ہے اور جس سیاسی جماعت نے اقتدار حاصل کرنا ہے اسے میڈیا کو اپنا ہمنوا بنانا پڑے گا۔کتاب ’پاکستان میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کا سیاسی کردار‘ میں بتایا گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو یقین تھا کہ پیپلزپارٹی مارچ 1977 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرے گی لیکن اس کے باوجود وہ مطمئن نہ تھے انہوں نے اپنے سپیشل سیکریٹری راؤ عبدالرشید سے ملاقات کر کے انہیں ہدایت کی کہ آئندہ انتخابات کے حوالے سے وقفے وقفے سے ایک سروے کرایا جائے۔اکرم شیخ نے وزیراعظم سیکرٹریٹ کو آگاہ کیا کہ آئی بی نے یہ کام شروع کر دیا ہے تاہم وہ اس کام کے لیے کوئی نیا ادارہ قائم کرنے کے حق میں اس لیے نہیں ہیں کیونکہ اس کے لیے بڑی تعداد میں لوگوں کی بھرتیاں کرنی پڑیں گی، انہوں نے واضح کیا کہ ’یہ نمائندے عامل صحافیوں میں سے منتخب کیے جائیں گے چونکہ صحافی پہلے ہی فیلڈ میں موجود ہوتے ہیں اور ان کی رسائی عوام کے تمام طبقات تک ہے اس لیے ان کو دوہزار روپے ماہانہ فی کس کے حساب سے رقم دی جائے گی اگر کوئی صحافی مستقل طور پر ہمارے ساتھ کام کرنا چاہے تو ہمیں اعتراض نہیں ہو گا تاہم ہمیں یہ اختیار ہو گا کہ ان کو جب چاہیں فارغ کر دیں۔ انٹیلی جنس بیورو کے منتخب کردہ صحافی آزادانہ حیثیت میں کام کریں گے جبکہ ان پر کراس چیک بھی ہوگا تاکہ سروے رپورٹ کی صداقت کا اندازہ ہو سکے۔انٹیلی جنس بیورو نے وزیراعظم کو جو رپورٹ ارسال کی اس کے مطابق اس منصوبے پر اخراجات کا تخمینہ 42 لاکھ روپے تھا جس میں سے 37 لاکھ 80 ہزار روپے صحافیوں کو ادا کیے جانے تھے۔منیر احمد لکھتے ہیں کہ وزیراعظم کو 22 فروری 1977 کو جو رپورٹ پیش کی گئی اس میں بتایا گیا کہ پیپلزپارٹی کو قومی اسمبلی کی 192 میں سے 95 نشستیں آسانی سے مل جائیں گی۔ پنجاب کی 116 میں سے 54 نشستیں آسانی سے مل جائیں گی جبکہ 35 پر سخت مقابلہ ہوگا۔ 27 نشستوں پر اپوزیشن کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔سندھ کی 43 نشستوں میں سے 18 پر پیپلز پارٹی کی کامیابی یقینی ہے جبکہ پانچ پر سخت مقابلہ ہو گا اور اپوزیشن کے حصے میں آٹھ نشستیں آئیں گی۔ بلوچستان میں 7 نشستیں ہیں جہاں پیپلز پارٹی کی کامیابی چار پر یقینی ہے۔پیپلز پارٹی کو 155 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی اور اپوزیشن کا اتحاد پاکستان نیشنل الائنس صرف 36 نشستیں حاصل کر سکا، بلوچستان کی ساتوں نشستیں پیپلز پارٹی نے جیت لیں، بھٹو خفیہ اداروں کے سیاسی استعمال کی تردید کرتے رہے، اس کا جواب بھٹو نے اپنی کتاب ’اگر مجھے قتل کیا گیا‘ میں دیا ہے اور لکھا ہے کہ ’جنرل ضیا نے میرے سپیشل سیکریٹری راؤ رشید، ایف ایس ایف کے ڈی جی مسعود محمود، ڈی جی آئی بی شیخ اکرم کو گرفتار کیا حالانکہ میرے اصل انٹیلی جنس آفیسر ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی تھے جنہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔بھٹو نے اپنی کتاب میں آگے چل کر لکھا کہ ’خفیہ اداروں کو استعمال کرنے کی روایت تو ایوب دور سے چل رہی تھی۔ صدر ایوب نے خفیہ اداروں کو میرے خلاف استعمال کیا اور کوشش کی کہ میری جماعت قائم نہ ہو سکے۔ بھٹو نے صدر ایوب کی جانب سے خفیہ اداروں کو استعمال کرنے کی ایک مثال دیتے ہوئے لکھا ہے کہ 1965 کی جنگ جاری تھی ایوب نے راولپنڈی میں ڈی جی آئی ایس آئی کو طلب کیا اور پوچھا کہ آپ انڈین آرمرڈ ڈویژن کا سراغ کیوں نہیں لگا سکے؟ میں بھی بطور وزیرِخارجہ وہاں موجود تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے کپکپاتے ہوئے جواب دیا کہ سر! ہمیں تو جون 1964 کے انتخابات اور ان سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنے کی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔