نون لیگ نئے چہرے سامنے لائے گی یا پرانے بابوں کو ہی آزمائے گی؟

پاکستان میں 8 فروری کو انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد سب سے مسلم لیگ ن بہت زیادہ متحرک دکھائی دے رہی ہے اور عام انتخابات کے لیے جماعت کی تیاریاں نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہیں۔پارٹی کی جانب سے قومی، صوبائی اور مخصوص نشستوں پر پارٹی ٹکٹ اور امیدواروں کے انتخاب کے لیے پارلیمانی بورڈ کے اجلاسوں کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے۔تاہم سابق حکمران جماعت کے لیے پارٹی کے لیے قربانیاں دینے والے سابق امیدواروں کے ساتھ نئے الیکٹ ایبلز، نوجوانوں اور خواتین کو ٹکٹوں کے لیے فائنل کرنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔

تاہم ترجمان ن لیگ پنجاب عظمیٰ بخاری کے مطابق، ’پارلیمانی بورڈ درخواست دہندہ امیدواروان کے انٹرویو کرے گا اور میرٹ پر ٹکٹیں دینے کا فیصلہ کرے گا۔ پارٹی قیادت نے اس اعلی سطحی بورڈ کو مکمل اختیارات دے رکھے ہیں اس لیے کسی پارٹی رہنما یا کارکن کے لیے شکایت کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔‘

تاہن دوسری جانب تجزیہ کاروں کی اس بارے میں رائے منقسم ہے کہ ن لیگ حلقوں میں روایتی امیدوار اتارے گی یا نئے چہرے لانے میں کامیاب ہوگی۔

بعض سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں ن لیگ پرانے اور وفا داروں کو ہی میدان میں لائے گی جبکہ بعض کے مطابق نون لیگ کو انتخابات میں موروثی سیاست کے خلاف نوجوانوں کو ساتھ ملانے کے لیے نئے چہرے زیادہ لانا ہوں گے۔

دوسری جانب سیاسی تجزیہ کار وجاہت مسعود کا کہنا ہے کہ ’نواز شریف کا اگر اکتوبر 2020 والا بیان دیکھا جائے تو محسوس ہوتا تھا وہ روایتی امیدواروں سے نکل کر نوجوانوں اور خواتین کو سامنے لانے پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن جب انہوں نے کوئٹہ میں خواتین سے متعلق بات کر کے لاہور جلسے میں پرانی ڈگر پر چلنے کا اشارہ دیا اس سے اندازہ ہوتا ہے انہوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا وہ پرانے والے ہی نواز شریف ہیں جو صرف اقتدار چاہتے ہیں۔‘ان کے خیال میں انہیں نہیں لگتا کہ وہ پرانے بزرگ امیدواروں اور موروثی سیاست سے باہر نکلیں گے۔’انہیں اس بات کا ابھی تک ادراک نہیں کہ اب پاکستان کافی بدل چکا ہے نوجوان اب لیپ ٹاپ لے کر خاموش ہونے کی بجائے خوداری اور آئینی بالادستی کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔‘

وجاہت کے مطابق: ’ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ دفن کر کے کس طرح نئی سوچ رکھنے والوں کو مصلحتی پالیسیوں کے تابع کیا جاسکتا ہے؟ اب نوجوان حلقوں میں روایتی سیاستدانوں سے سوال ضرور پوچھیں گے کہ جو علم میاں صاحب نے 2017 میں اٹھایا تھا وہ اب ان کے ہاتھ میں کیوں نہیں ہے۔ پنجاب سمیت ملک بھر میں ن لیگ کے بیانیے پر اگر مخالف امیدوار سامنے آئیں گے تو نوجوان ان کی طرف زیادہ متوجہ ہوں گے۔‘

دوسری جانب سیاسی تجزیہ کار سلیم بخاری کے مطابق  ’سیاست میں سب سے اہم وفاداری ہوتی ہے جو لوگ جنرل مشرف دور سے لے کر جنرل باجوہ تک پارٹی کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی چکی میں پستے رہے، دباؤ، جیلیں، جبر برداشت کر کے بھی نواز شریف کے ساتھ کھڑے رہے انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ نواز شریف کے ساتھ اسی لیے پارٹی رہنما اور اراکین اسمبلی ڈٹ کر کھڑے رہے کہ انہیں یقین تھا کہ برا وقت گزر جائے گا اور وہ ایک بار پھر اپنی قیادت کے شانہ بشانہ ہوں گے۔‘سلیم بخاری نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اب انہیں ن لیگ کس طرح نظر انداز کر کے نئے امیدوار سامنے لا سکتی ہے۔’جب نواز شریف خود وزارت عظمی اور شہباز شریف پنجاب کے لیے آئیڈیل ہیں تو کیسے ممکن ہے وہ اپنی ٹیم کے بغیر ایوانوں میں پہنچیں۔‘

سلیم بخاری نے کہا کہ ’ہم کئی دہائیوں سے نواز شریف کی سیاست دیکھ رہے ہیں۔ وہ وفاداروں کو کبھی نہیں بھولتے البتہ جو خود چھوڑ کر چلا جائے اس کی طرف رجوع کم ہی کرتے ہیں۔ پھر چوہدری نثار جیسا اہم ساتھی ہی کیوں نہ ہو۔ لہذا امید ہے ن لیگ زیادہ تر اپنے پرانے اور الیکٹ ایبلز کو ہی ٹکٹ جاری کرے گی۔ تاکہ تجربہ کار اراکین کو ایوانوں میں لایا جائے جن کی وفاداریاں تبدیل ہونے کا بھی خدشہ نہ ہو۔‘

البتہ سینیئر صحافی ندیم رضا اس بات سے اتفاق نہیں کرتے ان کا کہنا ہے، ’نواز شریف ہوں شہباز شریف یا ان کے ہم عمر سینیئر دیگر پارٹی رہنما، انہیں جتنا بھی تجربہ ہو لیکن پانچ سے 10 سال بعد نئی قیادت اور نئے چہرے ہی پارٹی چلا سکیں گے۔ جس طرح مریم نواز اور حمزہ شہباز کی تربیت شروع کر دی گئی ہے۔ اسی طرح حلقوں میں بھی ن لیگ کوشش کرے گی روایتی خاندانوں کے ہی سہی لیکن نوجوان امیدوار سامنے لائے جائیں۔‘ندیم رضا نے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس الیکشن کے بعد آئندہ کی سیاست کے لیے بھی ان کے پاس مضبوط امیدوار موجود ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح تحریک انصاف نے گذشتہ 10 یا 12 سالوں میں موروثی سیاست کے خلاف بیانیہ بنائے رکھا، نوجوانوں اور خواتین کو ترجیح دی گئی اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اب نوجوان امیدواروں کو ٹکٹ دینے کی شرح بڑھانی پڑے گی۔‘

ندیم رضا کے خیال میں ’سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا اب ایک حقیقت بن چکا ہے لہذا اب ن لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ رہنماؤں کی ضرورت ہے۔ تاکہ موجودہ دور کے جدید ٹولز کو استعمال کرنے والوں سے پارٹی عوامی سطح پر استفادہ کر سکے۔ کئی حلقوں میں ن لیگ کے سینیئر اور روایتی امیدوار عمر رسیدہ ہو چکے ہیں ان کے متبادل کے طور پر بھی نوجوانوں کو سامنے لانے پر غور کیا جا رہا ہوگا۔ لہذا وفاداریاں اپنی جگہ نئے روجحانات اور ٹیکنالوجی کو بھی پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔‘

Back to top button