ٹی ٹی پی کا پاکستان آرمی کے خلاف البدر آپریشن شروع


کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف البدر نامی آپریشن کا آغاز کر دیا یے جس کے بعد شمالی وزیرستان سمیت دیگر قبائلی اضلاع میں دہشتگرد حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ آپریشن کا آغاز کرتے ہی تحریک طالبان نے 22 اپریل کو قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں پاکستان آرمی کے ایک قافلے پر حملہ کیا جس میں سیکیورٹی فورسز کے 7 جوان شہید ہو گئے۔ معلوم ہوا ہے کہ یہ دہشت گرد افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے اور واردات ڈال کر واپس چلے گئے۔ دوسری جانب پاکستانی فضائیہ نے بھی افغانستان سے دراندازی کر کے پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے تحریک طالبان کے جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ پاک فضائیہ کے ڈرون طیاروں نے افغانستان کے خوست اور کونڑ صوبوں میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر بمباری کی جس میں 40 سے زائد دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔
افغانستان میں پاکستانی ڈرون طیاروں کے حملے ایسے وقت میں کئے گئے ہیں جب پاکستان میں ٹی ٹی پی نے سکیورٹی فورسز کے خلاف آپریشن البدر شروع کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے پاکستان میں تحریک طالبان کی دہشت گردی میں تیزی آگئی ہے۔ پاکستان کی جانب سے مسلسل افغان حکام سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکا جائے۔ پاکستان مسلسل الزام لگارہا ہے کہ افغانستان میں پاکستانی عسکریت پسند بھاری تعداد میں موجود ہیں اور طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ سال 2020 میں اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ہونے والی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان ميں ساڑھے 6 ہزار پاکستان مخالف طالبان شدت پسند پناہ ليے ہوئے ہيں ۔ رپورٹ کے مطابق ان شدت پسندوں کی اکثريت کا تعلق کالعدم تنظيم تحريک طالبان پاکستان سے سے ہے۔ یہ بھی کہا گيا ہے کہ اس تنظيم کے افغانستان ميں ‘اسلامک اسٹيٹ‘ یا داعش کی مقامی شاخ کے ساتھ بھی روابط ہيں اور يہ پاکستان ميں سويلين اور عسکری اہداف پر حملوں ميں ملوث رہی ہے۔ لیکن اس رپورٹ کے باوجود افغانستان میں موجود پاکستان دشمن عسکری تنظیموں کے خلاف طالبان حکومت کی جانب سے کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔
پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ دہشت گرد افغان سرزمین کو پاکستان کے اندر کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں، اس سلسلے میں پاکستان نے بارہا طالبان حکومت سے پاک افغان سرحدی علاقے کو محفوظ بنانے کی درخواست کی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ان حالات میں دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے لئے پاکستانی فوج کے جیٹ طیاروں کی افغانستان کے صوبہ کنڑ اور خوست کے پر بمباری ضروری تھی۔ تاہم وزات خارجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان، افغانستان کی آزادی، خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے۔
دوسری جانب افغان امور کے ماہر تجزیہ کار عبداللہ مہمند کا کہنا ہے کہ پاکستان ایسی کاروائیوں سے افغان عوام کے دلوں میں نفرت کو بڑھا رہا ہے جن کا ردعمل افغانستان میں ہونے والے پاکستان مخالف مظاہروں کی صورت میں بھی دیکھا گیا ہے۔ ایسے حملوں سے دونوں ممالک کے درمیان تلخی اور نفرت میں اضافہ ہوگا، جبکہ افغان طالبان پر بھی اپنے عوام کی جانب سے جوابی کارروائی کے لیے دباؤ بڑھے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اگر افغان طالبان سے ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کر رہا ہے تو پھر بمباری اس کا حل نہیں، سب سے پہلے مزاکرات کی میز پر بیٹھ کر سمجھنا ہوگا کہ افغان طالبان کیوں پاکستانی عسکریت پسندوں کے خلاف ایکشن نہیں لے رہے؟
تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ افغان طالبان کے کہنے پر تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کرکے دیکھ چکے ہیں جن کا نتیجہ صفر نکلا۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی نے مذاکرات کے عمل کو پاکستان کی کمزوری سمجھا اور دہشت گرد حملوں میں اضافہ کردیا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی اور افغان امور کے تجزیہ کار حق نواز خان کہتے ہیں کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان نےافغان طالبان کے لئے حکومتی سطح پر جتنے مثبت بیانات اور سفارت کاری کی تھی، اس کے جواب میں افغان طالبان کا پاکستان کے حوالے سے جو نرم گوشہ پیدا ہوا تھا وہ سب افغانستان میں پاکستانی طیاروں کی بمباری کی وجہ سےمتاثر ہوا یے ۔۔حق نواز کے مطابق ماضی میں بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی مگر کبھی کابل میں طالبان نے پاکستانی سفیر کو بلا کر احتجاج اور دھمکی نہیں دی تھی جو اس واقعہ میں سامنے آیا جب پاکستان کے سفیر کو کابل میں افغان خارجہ امور کے وزارت بلا کر نہ صرف اس واقعے پر احتجاج کیا گیا بلکہ دھمکی بھی دی گئی کہ اس واقعے کا جواب دیا جائے گا۔ افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی طاہر خان کہتے ہیں کہ افغان طالبان ہمیشہ پاکستان کے نزدیک رہے اور پاکستان نے انکے ساتھ پاکستانی طالبان کے خلاف کاروائی کا معاملہ کئی بار اُٹھایا لیکن افغان حکومت کی جانب سے مثبت جواب نہیں آیا اور ہر بار پاکستان کو ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا مشورہ دیا گیا جو اب قابل عمل دکھائی نہیں دیتا۔

Back to top button