پیپلزپارٹی اورنواز لیگ میں عہدوں پرکیا اختلافات ہیں؟
نئے حکومتی اتحاد میں عہدوں کی تقسیم پر پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی قیادت میں اختلافات شدید تر ہو گئے ہیں جس کی بنیادی وجہ صدر اور چئیرمین سینیٹ کے آئینی عہدے پیپلز پارٹی کو دینے سے انکار ہے۔ اسکے علاوہ بلاول بھٹو کا اصرار ہے کہ بی این پی مینگل، اے این پی اور محسن داوڑ کو کابینہ کا حصہ بنائے جانے تک وہ بطور وزیر خارجہ اپنے عہدے کا حلف نہیں لیں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ صدر مملکت عارف علوی کو وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے وفاقی کابینہ کی منظوری کیلئے جو سمری موصول ہوئی تھی اس میں تمام طے شدہ نام موجود تھے، تاہم کابینہ کی حلف برداری سے ایک رات پہلے وزرا کی لسٹ سے سب سے پہلے محسن داوڑ کا نام خارج ہوا، بتایا جاتا ہے کہ قومی اسمبلی میں فوج کے بارے میں ایک متنازعہ تقریر پر انہیں کابینہ میں شامل کرنے کا فیصلہ واپس لیا گیا لیکن اس حوالے سے پیپلز پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے بھی محسن داوڑ کو کابینہ میں شامل کرنے کی مخالفت کی ہے۔ اسی طرح بی این پی مینگل کی طرف سے آغا حسن بلوچ کو وفاقی وزیر بنانے کا فیصلہ ہوا تھا لیکن چاغی میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ایک ڈرائیور کے قتل کے بعد اختر مینگل نے کابینہ میں شمولیت کا فیصلہ واپس لے لیا، انہوں نے اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو ابھی تک پورا نہیں ہو پایا۔ اسی طرح اے این پی وزارت مواصلات لینے کی خواہش مند تھی، لیکن یہ وزارت جے یو آئی کو دے دی گئی جو صوبے میں اے این پی کی مد مقابل ہے، لہذا اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی نے کہہ دیا ہے کہ انہیں وزارت کی خواہش نہیں۔ ذرائع کے مطابق اے این پی کو وزیر اعظم شہباز شریف نے وزارت تعلیم دینے کی پیشکش کی ہے اور اسفندیار ولی کو منانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
لیکن زیادہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ن لیگ اپنی اہم ترین اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کو صدر مملکت، چیئرمین سینٹ اور گورنر پنجاب کے عہدے دینے پر راضی نہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف صدر مملکت، سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے تمام آئینی عہدے پیپلز پارٹی کو دینے پر غیر واضح تھے لہٰذا بلاول بھٹو نے لندن جاکر نواز شریف سے خود ان معاملات پر مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی صدر مملکت کے عہدے کے امیدوار بن چکے ہیں اور انہوں نے اس خواہش کا اظہار نواز شریف اور شہباز شریف سے بھی کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ مولانا اپنے قریبی ساتھی عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بنانا چاہتے ہیں۔ نون لیگ نے پیپلز پارٹی کی جانب سے مخدوم احمد محمود کو گورنر پنجاب نامزد کرنے کے باوجود یہ عہدہ اپنی جماعت کو دینے پر اصرار کیا ہے۔ اس کے بدلے شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کو پنجاب میں سینئر وزیر کے علاوہ دو صوبائی وزارتیں اور چار معاون خصوصی اور مشیران کے عہدوں کی پیشکش کی ہے۔ ذرائع کے مطابق ان اختلافی امور پر بلاول بھٹو لندن میں نواز شریف سے مذاکرات کریں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر پیپلزپارٹی کے مطالبات نہ تسلیم کیے گئے تو بلاول بھٹو وزارت خارجہ نہیں سنبھالیں گے۔
اگرچہ 33 رکنی وفاقی کابینہ نے حلف اٹھا لیا ہے لیکن کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں 26 وفاقی وزرا اور 2 وزرائے مملکت کے نام شامل ہیں، ان کے علاوہ وزیراعظم نے تین مشیر بھی مقرر کیے ہیں۔ وزیر اعظم آفس کے ذرائع نے بتایا کہ کابینہ کے 5 ارکان کا قلمدان ابھی زیر غور ہے جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے، ان میں خرم دستگیر خان، عبدالرحمن کانجو، ریاض پیرزادہ، سردار ایاز صادق اور مرتضیٰ جاوید عباسی شامل ہیں۔ بتایا جاتا رہا ہے کہ حکمران اتحاد کی 2 اہم جماعتوں، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں کابینہ کے لیے اپنے اراکین کے انتخاب اور محکموں کی تقسیم پر اب بھی تحفظات موجود ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے ذرائع نے بتایا کہ کابینہ کے ارکان کے انتخاب اور ان کے درمیان محکموں کی تقسیم پر پارٹی کے اندر اختلافات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مریم نواز پارٹی کے تجربہ کار رہنماؤں کے ناموں پر غور نہ کیے جانے پر وزیر اعظم سے ’ناخوش‘ ہیں جن کی پارٹی کے سپریم لیڈر نواز شریف کے ساتھ قریبی اور طویل رفاقت ہے جو اس وقت برطانیہ میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ذرائع نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے مبینہ نواز کیمپ کے صرف ایک رکن جاوید لطیف کو کابینہ میں شامل کیا جنہوں نے حلف نہیں اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہبا زشریف کا نعرہ ’موزوں کام کے لیے موزوں شخص‘ کابینہ کے ارکان کے انتخاب سے ظاہر نہیں ہوا کیونکہ نواز شریف کے قریبی ساتھیوں کو بظاہر نظر انداز کر دیا گیا ہے، جن میں عرفان صدیقی، پرویز رشید، محمد زبیر، دانیال عزیز، مصدق ملک، طلال چوہدری، برجیس طاہر، طارق فاطمی اور ظفر اللہ خان شامل ہیں۔ مسلم لیگ کے نواز شریف کیمپ کا خیال ہے کہ تعلیم کے شعبے میں 25 سال سے زائد عرصے کا تجربہ رکھنے والے عرفان صدیقی کو نظر انداز کیا گیا اور رانا تنویر کو تعلیم کا قلمدان سونپا دیا گیا۔ اسی طرح پی پی پی کے مصطفی نواز کھوکھر نے وفاقی وزارت نہ دیئےجانے پر وزیر مملکت بنانے کی پیشکش مسترد کر دی ہے۔
پیپلز پارٹی ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو برطانیہ روانہ ہوگئے ہیں اور وہ لندن میں نواز شریف سے ملاقات کریں گے تاکہ وفاقی کابینہ کی تشکیل پر اپنی پارٹی اور دیگر اتحادیوں کے تحفظات کا اظہار کیا جا سکے، پیپلز پارٹی کی نظریں تین آئینی دفاتر ایوان صدر، چیئرمین سینیٹ اور گورنر پنجاب پر بھی ہیں۔ پی پی پی ذرائع نے کہا کہ پارٹی قیادت ارکان اسمبلی کے انتخاب اور بلوچستان نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی جیسے اتحادیوں کو نظر انداز کیے جانے پر ناراض ہے، جنہیں آصف زرداری نے حکومت میں حصہ داری کی ضمانت دی تھی۔ محسن داوڑ کو بھی وعدے کے باوجود وفاقی کابینہ میں جگہ نہیں ملی حالانکہ ان سے وزارت کا وعدہ آصف علی زرداری نے شہباز شریف کے ایما پر کیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومتی اتحاد ان اختلافات کو ختم کرنے میں کامیاب ہو پائے گا یا شہباز شریف آغاز میں ہی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔