چودھری سرور نےساڑھے 3 سال انجوائے کیا، اور کیا چاہیے
مسلم لیگ ق کے رہنما چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ چودھری سرور نے ساڑھے 3سال گورنر شپ انجوائے کی، انہیں اور کیا چاہیے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے برطرف گورنر پنجاب کی پریس کانفرنس پر ردعمل میں پرویز الٰہی کا کہنا تھا چوہدری سرور میرے بارے میں کچھ بھی کہتے رہیں، میں ان کے کسی بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا، مجھے نہیں پتا ان کا مستقبل کیا ہوگا، ساڑھے تین سال گورنرشپ انجوائے کی ہے تو اب اور کیا چاہیے۔
حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ پنجاب کے نامزدکردہ امیدوار چوہدری پرویز الہیٰ کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی میں پیدا شدہ کشیدہ صورتحال کے دوران ڈپٹی اسپیکر کے پاس کوئی اور آپشن اور راستہ نہیں تھا کہ وہ انتخابی کارروائی کو ملتوی کرتے، اب نئے شیڈول کے تحت نئے قائد ایوان کا الیکشن 6 اپریل کو ہوگا اور دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہوجائےگا، جو لوگ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے تھے جب وہ اپوزیشن کے لوگوں کے ساتھ بیٹھے تو ہمارے لوگوں نے ان سے کہا کہ یہ آپ کی جگہ نہیں، آپ اس طرف آئیں، جب پی ٹی آئی کے اراکین نے ان لوگوں سے ایوان میں بات کی جس کی انہیں اجازت ہے تو جب وہ لوگ واپس آنے لگے تو دوسرے لوگوں نے ان پر حملہ کردیا، جس کے بعد ایوان میں ایک لڑائی کی صورتحال پیدا ہوگئی جو آپ نے دیکھی جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر کے پاس کاررئی ملتوی کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا، اب وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے پولنگ 6 اپریل کو ہوگی، 6 اپریل بروز بدھ صبح ساڑھے 11 بجے ایوان میں نے قائد ایوان کا انتخاب ہوگا۔
ایک سوال پر پرویز الٰہی نے کہا ہمیں ایوان میں اکثریت حاصل تھی، ہمیں ضرورت ہی نہیں تھی کسی ایسی چیز کی، پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے اراکین نے شور شرابا کیا، جس کے بعد ایوان میں ایسی صورتحال پیدا ہوئی جس کے باعث ایوان کی کارروائی ملتوی کرنی پڑی، اب 6 تاریخ کو صورتحال واضح ہوجائے گی۔
سابق گورنر پنجاب سے متعلق سوال پر انکا کہنا تھا چوہدری محمد سرور سے میرا بہت پرانا اور اچھا تعلق ہے، وہ میرے بھائی ہیں، ان کے بارے میں کوئی بات نہیں کرسکتا، چوہدری سرور میرے بارے میں کچھ بھی کہتے رہیں، میں ان کے کسی بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا، مجھے نہیں پتا ان کا مستقبل کیا ہوگا، ساڑھے تین سال گورنرشپ انجوائے کی ہے تو اب اور کیا چاہیے۔
انہوں نے کہا اب عبد العلیم خان اور جہانگیر خان ترین سمیت سب ہی فارغ ہوگئے، علیم خان اب آرام سے بیٹھ کر وہ کریں جو کر رہے تھے، جہانگیر خان ترین لندن میں رہ رہے ہیں، وہ وہاں خوش رہیں۔
پی ٹی آئی رہنما راجا بشارت کا پنجاب اسمبلی میں پارٹی امیدار کو حاصل حمایت سے متعلق سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ آپ پنجاب اسمبلی کی ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں کس پارٹی کو کتنے اراکین کی حمایت ہے۔
راجا بشارت نے کہا اگر ن لیگ کسی دوسری پارٹی کے مینڈیٹ کو غصب کرنے کی کوشش کرے گی، جب ایک پارٹی کے منتخب اراکین کو آُپ گھیرے میں لے کر بیٹھیں گے تو پھر لازمی طور پر ایسی کشیدہ صورتحال پیدا ہوگی جیسا کہ آج آُپ نے ایوان میں دیکھی۔
یاد رہے کہاوزیر اعلیٰ کے انتخابات کے لیے پنجاب اسمبلی کا منعقد کیے جانے والا اجلاس بغیر ووٹنگ ملتوی کردیا گیا تھا، پنجاب اسمبلی کے آج ہونے والے اجلاس کا ون پوائنٹ ایجنڈا وزیراعلیٰ کا انتخاب تھا، حمزہ شہباز اور چوہدری پرویز الہٰی وزارتِ اعلیٰ کے لیے امیدوار ہیں، گھنٹی بجنے پر اجلاس شروع ہونے پر ایوان میں ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی تھی، اسپیکر کی جانب سے ہنگامہ آرائی پر اجلاس 6 اپریل تک ملتوی کردیا گیا تھا، گزشتہ روز بھی وزیر اعلیٰ انتخاب کے لیے منعقد ہونے والا پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہنگامہ آرائی کے سبب ملتوی کردیا گیا تھا۔ دوران اجلاس سابق وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی ایوان میں آمد پر ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کرنے لگا تھا اور اس دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے ایک دوسرے کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
واضح رہے کہ پنجاب میں وزارت اعلیٰ کی دوڑ کے لیے متحدہ اپوزیشن کو 188 اور حکومت کو 183 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
خیال رہے کہ تحریک عدم اعتماد کی باز گشت کے بعد حکومت نے اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ان کا مطالبہ منظور کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا استعفیٰ طلب کرلیا گیا تھا،28مارچ 2022 کو وزیر اعلیٰ پنجاب نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کی تصدیق پی ٹی آئی کی وزرا کی جانب سے بھی گئی تھی جس کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ کے امیدوار تھے۔
یہ بھی یاد رہے کہ گزشتہ روز ایک ٹوئٹ کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان نے پی ٹی آئی اراکین صوبائی کو ہدایت دی تھی کہ وہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کو ووٹ دیں اور کوئی بھی رکن ووٹ دینے سے گریز نہ کرے۔
دریں اثنا اپوزیشن اور حکومت کی جانب سے سادہ اکثریت کا دعویٰ کیا گیا تھا جبکہ ترین گروپ نے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حمزہ شہباز کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔