کیا PTI کے اشتہاری اور مفرور ملزم الیکشن لڑ سکیں گے؟

سینئر سیاسی تجزیہ کار حذیفہ رحمٰن نے کہا ہے کہ ویسے تو پنجاب کے تمام حلقوں میں تحریک انصاف کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے پاس کہیں زیادہ مضبوط امیدوار ہیں اور اگر کسی حلقے میں تحریک انصاف کا پلڑا بھاری بھی ہے تو وہاں کا تحریک انصاف کا امیدوا ر سانحہ نو مئی یا کسی دیگر کیس میں مفرور ہے. ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا لیول پلئینگ فیلڈ کے نام پر عمران خان سمیت ان سب مفرور اور اشتہاریوں کو تمام تر جرائم کے باوجود ان کے حلقوں میں آزادانہ انتخابی مہم چلانے کی اجازت دے دی جاۓ. اپنے ایک کالم میں حذیفہ رحمٰن لکھتے ہیں کہ انتخابی شیڈول آنے کے بعد انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے تمام شک و شبہات دم توڑ گئے ہیں .جو تجزیہ نگار انتخابی سیاست سے واقف ہیں،وہ اتفاق کریں گے کہ صرف الیکشن والے دن کو صحیح انداز میں مینیج نہ کرنے سے بیس سے تیس ہزار ووٹوں کا فرق پڑ جاتا ہے۔ویسے تو پنجاب کے تمام حلقوں میں تحریک انصاف کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے پاس کہیں زیادہ مضبوط امیدوار ہیں اور اگر کسی حلقے میں تحریک انصاف کا پلڑا بھاری بھی ہے تو وہاں کا تحریک انصاف کا امیدوا ر سانحہ نو مئی یا کسی دیگر کیس میں مفرور ہے۔ایسے میں اگر اسے تحریک انصاف کا ٹکٹ مل بھی جائے اور الیکشن ڈے پر تحریک انصاف کاووٹر بڑی تعداد میں نکل بھی آئےتو کیا ہو گا؟۔ اگر کسی حلقے میں ستر یا اسی ہزار ووٹوں سے ممبر قومی اسمبلی جیتتا ہے تو اس میں اکثریتی ووٹرز کو انتخابات کے روز ٹرانسپورٹ دے کر گھروں سے لانا پڑتا ہے۔ چلیں مان لیں کہ یہ لوگ تحریک انصاف کی محبت میں بغیر ٹرانسپورٹ کے خود نکل آئیں گے۔اگرایک حلقے میں بغیر ٹرانسپورٹ کے نکلنے والے ووٹرز کی تعدادپچاس ہزار بھی ہو تو یہ انتہائی غیر معمولی اور دوسرے الفاظ میں پانچ لاکھ کے برابر ہوگی۔لیکن حقائق یہ بھی ہیں کہ یہ پچاس ہزار ووٹ اس تحریک انصاف کے امیدوار کو ایم این اے نہیں بناسکتے۔ستر یا اسی ہزار کا ہندسہ عبور کرنے کے لئے اسے حلقے میں بیٹھ کر الیکشن ڈے کے حوالے سے باقاعدہ منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ ٹرانسپورٹ،پولنگ ایجنٹس اور پولنگ ڈے کی منصوبہ بندی کئے بغیر وہ پچاس ہزار سے کم ووٹ تولے سکتا ہے، زیادہ نہیں۔ حذیفہ رحمٰن کے مطابق یہ ان حلقوں کی بات کی گئی ہے ،جہاں بقول نگرانوں کے تحریک انصاف کی بہت بڑی لہر ہے،لیکن ان حلقوں میں بھی زمینی حقائق مختلف ہیں۔ پھر بھی کچھ دیر کے لئے نگرانوں کی بات درست مان لی جائے تو اگر تحریک انصاف کے مضبوط حلقوں میں یہ صورتحال ہوگی تو کمزورحلقوں کا اندازہ آپ خود لگاسکتے ہیں۔ ایسے میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کے لئے الیکشن ڈے،ٹرانسپورٹ سمیت تمام منصوبہ بندی کے ساتھ ستر یا اسی ہزار کا ہندسہ عبور کرنا کوئی مشکل نہیں ہوگا اس لئے بند کمروں میں بیٹھ کر عوامی رائے کا اندازہ لگانا اور الیکشن کرا کے عوامی رائے جاننا دو مختلف چیزیں ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کو لیول پلئینگ فیلڈ دیں ،تاکہ اس کے امیدوار انتخابات کے روز تمام ترمذکورہ منصوبہ بندی کرسکیں اور پچاس ہزا ر کے بجائے اسی ہزار ووٹ لیں اور کامیاب ہوں۔یہ درست رائے ہے۔لیکن اگر کوئی انتخابی امیدوار ریاست میں انتشار پھیلاکر غائب ہوگیا ہو اورپھر ٹوئٹر ،فیس بک کے ذریعے ریاست کی سالمیت گزشتہ ایک سال سے للکار رہا ہو ،یا کسی امیدوار پر کرپشن کے کیسز ہیں اور وہ نیب اور اینٹی کرپشن کو مطلوب ہو اور اس دوران اشتہاری بھی ہوچکا ہو۔مگراب ہماری خواہش ہے کہ اسے لیول پلئینگ فیلڈ کے نام پر حلقے میں آنے دیا جائے اور اس کے تمام تر جرائم کے باوجود 8فروری تک اسے انتخابی مہم چلانے دی جائے ،اس میں بھی وہ جو مرضی کرتا رہے اور ریاست خاموش رہے کہ لیول پلئینگ فیلڈ ہے۔اسی طرح سے عمران خان کے خلاف مضبوط ترین کرپشن کیسز کے باوجود اسے صرف اس لئے رہا کردیں کہ انتخابات سر پر ہیں اور یہ ایک جماعت کا سربراہ رہے ،اس کو لیول پلئینگ فیلڈ مہیا کی جائے۔خدارا عمران خان کا نوازشریف،بے نظیر بھٹو،ذوالفقار علی بھٹو جیسے لوگوں سے موازنہ نہ کریں۔یہ تو وہی ہے کہ کہاں رام رام…کہاں ٹیں ٹیں…!

Back to top button