کیا پیپلزپارٹی PTIووٹرز کی حمایت حاصل کر پائے گی؟

8 فروری کو ہونے والے الیکشن کے لیے پیپلزپارٹی لاہور سمیت پنجاب بھر سے پی ٹی آئی ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے، پیپلز پارٹی ملتان کے جنرل سیکریٹری امین ساجد کا کہنا ہے کہ ہم تحریک انصاف کے سپورٹرز کو کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کے حق میں رائے استعمال کرنے کی صورت میں ان کا ووٹ ضائع ہو سکتا ہے، کیوںکہ انتخابات میں کامیابی کے بعد آزاد منتخب ہونے والے (پی ٹی آئی کے) اراکین ضروری نہیں کہ اپنی جماعت کے وفادار رہیں۔‘امین ساجد آٹھ فروری 2024 کے انتخابات کے لیے چیئرمین بلاول بھٹو کے 10 نکاتی انتخابی منشور کے ہمراہ نوجوانوں کے نام پیغام لے کر الیکشن کمپین میں مصروف ہیں۔انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں امین ساجد کا کہنا تھا کہ وہ ان انتخابات کی مہم میں بغیر کسی تخصیص کے ہر نوجوان اور جوان پر توجہ دے رہے ہیں اور ان میں پی ٹی آئی کے ووٹرز اور حمایتی بھی شامل ہیں۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے ایک کارکن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں پی ٹی آئی کے حمایتیوں پر زیادہ توجہ دینے کی ہدایات دی گئی ہیں۔سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ’پھرتیاں‘ موجودہ مخصوص ملکی حالات میں معنی خیز دکھائی دیتی ہیں اور شاید یہ جماعت دوسری سیاسی پارٹیوں خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کو درپیش مشکل حالات کو انتخابات میں کیش کرنے کی پہلے ہی منصوبہ بندی کر چکی ہے۔سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کے خیال میں پیپلز پارٹی کی قیادت پاکستان تحریک انصاف کے زیر عتاب ہونے کی وجہ سے انتخابی منظرنامے سے تقریباً باہر ہونے کو ایک ’اوپننگ‘ کے طور لے کر اس موقعے سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی جارحانہ انتخابی مہم میں بلاول بھٹو نے تین دوسرے صوبوں کے علاوہ صرف پنجاب میں تقریباً ایک درجن جلسوں سے خطاب کرنا ہے جب کہ ان کے والد اور جماعت کے شریک چیئر پرسن آصف علی زرداری اور چھوٹی بہن آصفہ بھٹو بھی اس کمپین میں حصہ لے رہی ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں مسلم لیگ ن بھی اس وقت مختلف مسائل کا شکار ہے، جس سے پیپلز پارٹی پوری طرح مستفید ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔سینیئر صحافی اور لاہور کے سٹی میڈیا گروپ کے ڈائریکٹر سلیم بخاری سے اس سلسلے میں دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ دنوں سے یکایک تمام اہم ریاستی قوتیں مسلم لیگ ن کو محدود کرنے کی کوششیں کرتی نظر آ رہی ہیں۔‘بعض دوسرے سیاسی تجزیہ نگار پیپلز پارٹی کی ’تیزیوں‘ کو ایک الگ زاویے سے بھی دیکھتے ہیں، جس کے مطابق فروری کے انتخابات پی پی پی کے مختلف نوعیت کے حامل ہیں۔کراچی سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار نذیر لغاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پیپلز پارٹی کو یقین ہے کہ اس مرتبہ اس کو جو ووٹ ڈالا جائے گا وہ گنا بھی جائے گا اور اس نے لیول پلیئنگ فیلڈ بھی حاصل کر لی ہے۔‘انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو پنجاب میں جو انتخابی مہم چلا رہے ہیں اس میں ان کی اپنی جماعت کے علاوہ مسلم لیگ ن کے حمایتی بھی شرکت کر رہے ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ پی پی پی اپنے علاوہ پی ایم ایل این کے ووٹرز کو بھی رام کر رہی ہے۔پاکستان تحریک انصاف حکومت سے باہر ہونے، نو مئی کے واقعات اور نتیجتاً گذشتہ سال اگست میں پارٹی کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے مسائل اور مشکلات کا شکار ہے، جن میں گزرنے والے ہر دن کے ساتھ اضافہ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے، ایسی صورت حال میں پی ٹی آئی کے لیے ایک مؤثرانتخابی مہم چلانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، تاہم اس کے کچھ رہنما اپنے طور پر ملک کے مختلف حصوں میں کنونشنز اور جلسوں کا اہتمام کر رہے ہیں جبکہ ماضی کی طرح یہ پارٹی سوشل میڈیا پر بھرپور انداز میں فعال نظر آتی ہے۔

Back to top button